Due to verse 33:56
PLeas read Molana Ahsan note on it
’ایک یہ کہ جس نبی کا مرتبہ اللہ اور اُس کے فرشتوں کی نظروں میں یہ ہے کہ اللہ اُس پر رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے اُس پر رحمت کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، حیف ہے اگر انسانوں میں سے کچھ لوگ اُس کے درپے آزار ہوں، دراں حالیکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی احسان انسانوں ہی پر ہے، نہ کہ خدا اور اُس کے فرشتوں پر۔ دوسری یہ کہ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی احسان نہیں کرتے، بلکہ خدا اور اُس کے فرشتوں کی ہم نوائی کر کے وہ اپنے کو سزاوار رحمت بناتے ہیں۔ جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے، جب آپ کو اللہ کی رحمت اور فرشتوں کی دعائیں حاصل ہیں تو وہ دوسروں کی دعاؤں کے محتاج نہیں ہیں۔ تیسری یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا مرض نفاق کا علاج ہے۔ اِس لیے کہ یہاں جس محل میں اِس کی ہدایت فرمائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ منافقوں کی طرح نبی کو ایذا پہنچانے کے بجاے اہل ایمان کو نبی پر درود بھیجنا چاہیے۔ اِس سے یہ بات واضح طور پر نکلتی ہے کہ جو لوگ درود کا اہتمام رکھتے ہیں، اُن کے اندر نفاق راہ نہیں پاتا۔ چوتھی یہ کہ مقصود درود و سلام کی تکثیر ہے۔ موقع و محل بھی اِس مفہوم کا متقاضی ہے اور آیت کے الفاظ بھی اِسی کے شاہدہیں۔ اِس لیے کہ ’سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘ میں مصدر تاکید و تکثیر کے مفہوم پر دلیل ہے۔‘‘