ہمارے نظام فکر میں قرآن مجید اصل ہے، احادیث کو اس کے تابع رکھ کر سمجھا جائے گا۔ احادیث سے کوئی مستقل حکم برآمد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ بھی قرآن مجید ہی کی پیروی کرتے تھے اس میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے تھے۔
قرآن مجید میں زنا کی سزا میں ‘الزانی’ اور ‘الزانیۃ’ کے الفاظ میں میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کا فرق نہیں کیا گیا۔ اس لیے دونوں کی سزا ایک ہی ہوگی، یعنی سو کوڑے۔ اسی طرح قرآن مجید نے بتایا کہ لونڈی کے لیے زنا کی سزا آزاد عورت کی سزا کے مقابلے میں نصف ہے۔ نصف سزا کوڑوں ہی کی ہو سکتی ہے، نہ کہ رجم کی۔ لونڈی کے لیے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونے کی شرط ہے اور نہ آزاد عورت کے لیے۔
سورہ نور کی آیت 8 میں میاں بیوی کے درمیان لعان کا معاملہ بتایا گیا ہے کہ اگر جرم ثابت ہو عورت پر وہی سزا لاگو ہوگی جو اسی سورہ کی آیت 1 میں بیان ہوئی ہے۔
اس لیے یہ طے ہے کہ زنا کی سزا شادی اور شدہ اور غیر شادی شدہ کے لیے سو کوڑے ہے۔
البتہ زنا کا جرم زنا سے بڑھ جائے چوری کا جرم چوری سے بڑھ کو ڈاکہ بن جائے تو اس صورت میں فساد فی الارض کی سزا ملتی ہے جس کی ایک صورت تقتیل یعنی عبرت ناک طریقے سے قتل کرنا ہے اور رجم اس کی ایک صورت ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے دور میں شادی شدہ ہو کر زنا کر جرم کی شدت کے حوالے سے دیکھا گیا اور وہ اس وجہ سے کہ خود اللہ کا رسول موجود تھا جو اتمام حجت کر رہا تھا، اس کے ہوتے ہوے کوئی شخص شادی شدہ ہو کر بھی زنا کرے، تو یہ اس کا مواخذہ سختی سے کیا گیا۔ مگر اصول وہی ہے کہ زنا کی سزا اصلا سب کے لیے برابر ہے البتہ کسی کا جرم، مجرم کے حالات اور جرم نوعیت کے لحاظ سے زیادہ شدید ہو تو اس کی سزا بھی زیادہ شدید ہوگی جیسے اسی جرم میں لونڈیوں کو کم تر سزا اس لیے دی گئی کہ ان کے حالات رعایت کا تقاضا کرتے تھے کیونکہ ان کی اخلاقی تربیت نہیں کی جاتی تھی۔