-
لیلۃ القدر
یہ تنقید میں غامدی صاحب کو کئی مہینہ پہلے ای میل کے ذریعے بھیج چکا ہوں مگر تاحال کوئی تبصرہ موصول نہیں ہوا۔ میں فہرئم کے ممبران کے لیے بھی ڈسکشن کی غرض سے یہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔
محترم جاوید احمد غامدی صاحب، سلام علیکم
گذشتہ دنوں آپ کا پروگرام علم و حکمت دیکھا جس میں آپ رمضان کی نسبت سے گفتگو فرما رہے تھے۔ آپ کی گفتگو کے دوران کئی ایسے موضوعات زیر بحث آئے جن پر کچھ سوالات وارد ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ پر میں اپنی ناقص فہم کےمطابق کچھ رائے زنی کرنا چاہوں گا۔ میرے سوالات یقیناً آپ کے لئے نہ صرف نئے ہوں گے بلکہ چونکا دینے والے ہوں گے اور شائد آپ کا بھی پہلا ردعمل اس سلسلہ میں شدید ہوگا مگر چیز کا نیا ہونا اس کے باطل ہونے کی دلیل نہیں ہوتا اصل چیز دلیل ہوتی ہے اور اسی پر کسی بات کے صحیح اور غلط ہونے کا انحصار ہوتا ہے۔
سب سے پہلی بات تو میں یہ عرض کردوں کہ آپ نے جو کمنٹس شب قدر کے سلسلہ میں فرمائے ہیں ان سے میں بالکل متفق نہیں ہوں۔ یعنی آپ کا یہ خیال کہ جناب رسالتماب صل اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر جب سورہ القدر نازل ہوئی تب آپ نے پلٹ کر گذشتہ واقعات کو یاد کیا تو آپ کو یہ خیال ہوا کہ شاید پہلی وحی فلاں رات کو ہوئی تھی وغیرہ وغیرہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کو جناب رسالتماب صل اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی ذات کی کوئی معرفت نہیں ہے اور آپ آنحضرت صل اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو جاوید احمد غامدی اور جناب امین اصلاحی صاھب جیسا ایک عام انسان سمجھتے ہیں یا شاید ان سے کچھ زیادہ متقی اور پرہیزگار شخص۔ جبکہ حقیقت اسکے بالکل برعکس یہ ہے کہ آنحضرت صل اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اللہ کے بنائے ہوےانبیا میں سب سے افضل اورممتاز ہونے کے ساتھ ساتھ خاتم الانبیا کی حیثیت رکھتے ہیں چنانچہ ان کے بارے میں یہ خیال کرنا کے وہ معاذاللہ نسیان میں مبتلا ایک عام انسان کی طرح وہم اور گمان کی بیماری میں مبتلا تھے تو یہ آپ کی انتہائی کوتاہ بینی اور عدم تدبر پر دلالت کرتا ہے۔جناب رسالتماب صل اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے لیے سورہ والنجم میں اللہ تعالیٰ کا یہ واضح ارشاد موجود ہے کہ وہ ہرگز کلام نہیں کرتا اپنی ہوائے نفس سے بلکہ (جو کچھ وہ کلام کرتا ہے) وہ وحی ہوتی ہے جو اس کی طرف کی جاتی ہے۔چنانچہ جناب رسالتماب صل اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے جو کچھ بھی آپ نے خودکلامی کے انداز میں منسوب فرمایا ہے یہ آپ کا ہوائے نفس سے کلام تو ہو سکتا ہے مگر جناب رسالتماب صل اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا اپنا کلام ہرگز نہیں ہو سکتا۔کیونکہ جناب رسالتماب صل اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہرگز کبھی بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا نہیں ہوئے اورنہ کبھی انھوں نے وہم و گمان کی پیروی فرمائی۔ان کی شان اس سے کہیں بلند ہے جو آپ نے تصور فرمائی ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ جناب رسالتماب صل اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو شب قدر معلوم نہیں تھی یا وہ بھول گئے تھے یہ آپ کا وہم وگمان اورخیال خام تو ہوسکتا ہے مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ جنابِ رسالتماب صل اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ایام اللہ کو ایسے ہی پہچانتے تھے کہ جیسے کوئی اپنے ہاتھوں میں موجود انگلیوں کی تعدادکوبالیقین جانتا ہے۔ چنانچہ وحی ربانی میں آئے ہوئے کلمہ “لیلۃ القدر” کو سمجھنے میں آپ نے غلطی فرمائی ہے جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ وعلٰے آلہٖ وسلم پر یہ نرا بہتان ہے۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ سورہ القدر میں آئے ہوئےکلمہ “لیلۃ القدر” کا کیا مطلب ہے آپ کو ایک اور بہت بڑی اور چونکا دینے والی حقیقت کو پہلےسمجھنا پڑے گا کہ مسلمانوں نے اللہ کی جاری کی ہوئی تقویم کو چھوڑ کر گمان کی پیروی کرتے ہوے قمری نظام کو اللہ کا جاری کیا ہوا نظام سمجھ لیا ہے اور اس ایک غلطی نے بے حدوحساب مسائل کا انبار لگا دیا ہے جن کا کوئی حل مسلمان تلاش کر ہی نہیں سکتے جب تک کہ اپنی اس غلطی کی اصلاح پر آمادہ نہ ہوجائیں۔ چنانچہ میں مختصراً اور اشارۃً آپ کی توجہ مسلمانوں کے مانے ہوئے مسلمات کے غلط ہونے کے دلائل کے طور پرمندرجہ ذیل حقائق کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں اس امید پر کہ آپ اپنی ان ناقدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جو کہ واقعی آپ کی شخصیت کا خاصہ ہیں ان نکات پر غور کریں گے اور جب آپ ان نکات کو تسلیم کرلیں گے تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ قران مجید جابجا اپنی آیتوں میں اس حقیقت کو واضح کررہا ہے مگر مسلمانوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی۔
1. سب سے پہلے تو اس بات کی وضاحت کر دوں کہ مسلمانوں نے قمری تقویم کی بنیاد جس آیت پر رکھی ہوئی ہے اس آیت کا تقویم کے مسئلہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ میرا اشارہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 189 کی جانب ہے جس میں مسلمانوں نے دو الفاظ یعنی ‘اہلہ’ اور ‘مواقیت’ پر غور نہ کرنے کی بنا پر اور ان الفاظ کے غلط مفاہیم اختیار کرنے کی بنا پر آیت کے مفہوم کو کچھ سے کچھ بنا دیا ہے۔ چنانچہ جیسا کہ یہ بات ظاہر ہے کہ یہ آیت احکام حج کی ابتدائی آیت ہے اور درحقیقت اس آیت میں حج ہی کے ایک اہم رکن کے بارے میں لوگوں کے استفسار کے جواب میں اللہ نے جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ وعلٰے آلہٖ وسلم کو یہ حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بتا دیں کہ اہلہ تو لوگوں کے لئے حج کے واسطے مواقیت ہیں۔چنانچہ اہلہ درحقیقت ہلل اور اہلال سے مشتق ہے جس کے معنٰی غل مچانا کے ہیں اور تلبیہ کے لیے بھی لفظ اہلال عام مستعمل ہے۔ یعنی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہم لبیک اللہم لبیک کا غل کہاں سے مچائیں تو کہہ دے کہ وہی مواقیت (یعنی میقات کے مقامات جہاں سے احرام باندھا جاتا ہے یا باندھا جانا چاہیے) ہیں لوگوں کے لیے حج کے واسطے۔۔۔اسی لیے آگے جو آیت میں ذکر آیا ہے کہ نیکی اس میں نہیں ہے کہ گھروں میں پچھواڑوں سے آئو بلکہ نیکی اس میں ہے کہ گھروں میں دروازوں سے آئو یعنی یہاں اللہ لوگوں کے اپنے گھروں کی بات نہیں کر رہا بلکہ اپنے گھر یعنی بیت اللہ کا ذکر کر رہا ہے کہ یہی مواقیت دراصل بیت اللہ کے دروازے ہیں چنانچہ جب حج کا ارادہ کرو تو میقات پر آ کر احرام باندھو اور تلبیہ کا غل مچائو۔ چنانچہ اس بات کو بھی نہ سمجھ سکنے کی بنا پر لوگوں نے آیت کے اس حصہ سے متعلق کئی افسانے تصنیف کئے ہوئے ہیں۔ ورنہ اپنے گھر میں پچھواڑے سے داخل ہونا کونسی شریعت میں گناہ بتایا گیا ہے ؟ اپنا گھر ہے بندہ جہاں سے چاہے آئے اور جائے اس پر کوئی شرعی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔
2. دوسری دلیل قمری تقویم کے سلسلہ میں مسلمان سورہ یونس کی آیت نمبر 5 کا حوالہ دیتے ہیں جس کا مضمون یہ بتاتے ہیں کہ وہی ہے کہ جس نے آفتاب کو روشنی اورچاند کو نور بنایا ہے پھر چاند کی منزلیں مقرر کی ہیں تاکہ ان کے ذریعہ برسوں کی تعداد اور دوسرے حسابات دریافت کرسکو -یہ سب خدا نے صرف حق کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ صاحبان علم کے لئے اپنی آیتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے (5) چنانچہ آیت کے اس مفہوم کو بے چوں و چرا تسلیم کر لینے کے بعد چاند کی منزلوں سے برسوں کی گنتی اور دوسرے حسابات کس طرح سمجھے جا سکتے ہیں اس کی توضیح کم از کم میں نے آجتک کسی تفسیر میں نہیں پائی۔ حالانکہ چاند کی اپنی وہ منازل جو کہ وہ دائرہ بروج کے اند رزمین کے گرد دورہ کرنے کے سلسلہ میں طے کرتا ہے وہ تو سوا ستائیس دن کے اندر پوری ہوجاتی ہیں جس کو نہ کوئی سال مانتا ہے اور نہ ہی مہینہ۔ چنانچہ اپنے اس دورہِ منازل میں چاند ایک سال میں پورے 13 چکر مکمل کر لیتا ہے جو کہ اہل زمین کو اس بنا پر کہ اس عرصہ میں زمین مانے ہوئے شمسی نظام کے تحت سورج کے گرد اپنے سالانہ دورہ کے نتیجے میں تقریباً 30 درجہ آگے بڑھ جاتی ہے چنانچہ جب چاند اس زائد فاصلہ کو طے کرتے ہوئے زمین کے اسی نقطہ کے سامنے آتا ہے تو اہل زمین کو اس کا یہ اضافی سفر نظر نہیں آتا اور ان کو 12 ہی چکر نظر آتے ہیں درانحالیکہ اس آیت میں عدد السنین والحساب کا تعلق قمر کی مانی ہوئی منازل سے ہے ہی نہیں بلکہ اس کا براہ راست تعلق شمس کے ضیا ہونے سے ہے اور قمر کے نور ہونے اور منازل میں مقدر ہونے کا ذکر جملہ معترضہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔چنانچہ اسی بات کو سورہ یس میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ “اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنا یا پھر رات کی نشانی کو دھندلا کر دیا اور دن کی نشانی کو نظر آنے کے لیے روشن کر دیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کر لو اور ہم نے ہر چیز کی تفصیل کر دی (12) ” اس آیت میں شمس و قمر کا ذکر کرنے کی بجائے رات اور دن کا ذکر کیا اور رات اور دن کا قمر سے کوئی تعلق نہ ہونا سب پر عیاں ہے
3. اس کے علاوہ پورے قراٰن مجید میں جن جن اوقات کا بھی ذکر آیا ہے وہ سب اوقات شمسی ہی ہیں خواہ وہ روزانہ کے اوقات ہوں یا ماہانہ یا کہ سالانہ اور چاہے وہ موسموں کا ذکر ہو ہر ایک کا تعلق شمس سے ہی ہے ، کسی ایک جگہ بھی اشارۃً بھی کسی قمری وقت کا کوئی ذکر نہیں ہے اور درحقیقت اوقات کا قمر سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
اب اس تفصیل کے بعد میں آپ پر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ سورہ القدر میں لیلۃ القدر کا ترجمہ جو آپ نے فیصلوں کی رات کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے بلکہ یہاں قدر کو مقدار کے معنی میں لیتے ہوئے جب آپ اس کا ترجمہ ہم پلہ رات یا مساوی رات کریں گے تو آپ نہ صرف شب قدر کو پا لیں گے بلکہ آپ پریوم الفرقان کا مفہوم بھی واضح ہو جائے گا۔ چنانچہ اگر آپ لیلۃ القدر کا صحیح ترجمہ جاننا چاہتے ہیں تو آپ انگریزی ڈکشنریوں میں EQUINOX کا ترجمہ دیکھ لیں درحقیقت لیلۃ القدر کا اس سے بہتر کوئی ترجمہ نہیں ہو سکتا اور اس مساوی رات کے مقابل میں اگر آپ مساوی دن جاننا چاہتے ہیں تو وہ یوم الفرقان ہے ۔ دوسرے معنوں میں 21 مارچ جو کہ ساری دنیا میں مساوی دن و رات کی حیثیت سے جانا جاتا ہے وہی دن یوم الفرقان یا 17 رمضان ہے اور اسی 17 رمضان کی شب لیلۃ القدر کی حیثیت رکھتی ہے۔اور یوم الفرقان ہی کو لیلۃ الفرقان بھی کہا جاتا تھا، چنانچہ انتخاب طبری میں عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ لیلۃ القدر کو سترھویں رات میں تلاش کرو اور یہ آیت پڑھی یوم التقی الجمعان اور یہ بدر کی صبح ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ اور بہت سے مسلمان مولویوں کی طرح اب تک آپ نے میرے لیے بہت سے القابات وضع نہیں کرلیے ہوں گے ۔ اور میں یہ بھی توقع رکھتا ہوں کہ آپ ان حیرت انگیز انکشافات پر کھلے ذہن کے ساتھ غوروفکر ضرور کریں گے اور بات کو محض عام مسلمات کے برخلاف ہونے کی بنا پر رد نہیں کر دیں گے۔ چنانچہ جب آپ اس امر کی تحقیق کے لیے آمادہ ہو جائیں گے تو آپ کو بے شمار دلیلیں قرآن مجید ہی میں میسر آ جائیں گی ۔
والسلام
Sponsor Ask Ghamidi
The discussion "لیلۃ القدر" is closed to new replies.