-
آخری وحی
انبیا کی تعلیمات کا سب سے بنیادی پہلو ایمانیات ہوتا ہے۔ اس ایمان کی اساس قرآن مجید میں یہ بیان ہوئی ہے کہ بندہ مومن کو غیب میں رہ کر ایمان لانا ہے(البقرہ3:2) اور غیب میں رہ کر اللہ سے ڈرتے رہنا ہے،(الملک12:67)۔ اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ انسانوں کو غیب پر مطلع کر دیں۔ غیب کی خبریں بذریعہ وحی صرف ان منتخب شخصیات کو دی گئیں جن کو اصطلاحاً نبی کہا جاتا ہے۔ یہ منتخب ہستیاں فرشتوں کی نگرانی میں رہ کر اپنے رب کا پیغام بندوں تک پہنچاتی ہیں،(الجن26-28:72)۔
وحی و نبوت کے تصور کی اساس اسی حقیقت پر ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے لیے کبھی غیب کی دنیا کا پردہ نہیں اٹھاتے سوائے انبیا علیھم السلام کے جن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ رب کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچائیں۔ وحی ونبوت کے متعلق قرآن مجید نے جہاں اور دوسری کئی چیزیں واضح کی ہیں، وہیں یہ حقیقت بھی بیان کی ہے کہ وحی کا یہ سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے پہلے ہی ہوا کرتا تھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اللہ، غالب اور حکیم اسی طرح تمھاری طرف وحی کرتا ہے اور جو تم سے پہلے گزرے ہیں، ان کی طرف بھی اسی طرح وحی کرتا رہا ہے۔“،(الشوریٰ3:42)
قرآن مجید کے آغاز پر جہاں اس وحی کو ایمانیات کا حصہ قرار دیا گیا ہے وہیں یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ یہ نزول وحی حضور اور آپ سے پہلے ہی ہوا کرتی تھی۔ ارشاد ہے:
”اور جو اسے بھی مان رہے ہیں جو تمھاری طرف نازل کیا گیا اور اسے بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا“،(البقرہ4:2)
قرآن مجید کے لیے یہ تصور ہی اجنبی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ کسی شخص کو وحی و الہام سے نوازیں اور غیبی امور پر اسے مطلع کریں، کیونکہ وحی کا تعلق منصب نبوت سے ہے۔ جب کسی شخص پر وحی ہوتی ہے تو وہ نبی بن جاتاہے اور کوئی شخص نبی نہیں ہے تو اس پر وحی بھی نازل نہیں ہوسکتی۔ وحی جب اپنے اصطلاحی مفہوم میں امور غیبی کی خبریں دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی جاتی ہے تو منصب نبوت کو لازمی کر دیتی ہے۔اس تصور سے ہٹ کر کوئی تصور اگر پایا جاتا ہے تو وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے، قرآن مجید کی بات نہیں ہوسکتی۔
اس حوالے سے تین سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سوالات اور ان کے جواب درج ذیل ہیں۔
پہلا یہ کہ قرآن مجید دیگر مخلوقات کے لیے وحی کا ذکر بھی کرتا ہے۔ جیسے شہد کی مکھی پر وحی (النحل68:16)
یا آسمان و زمین سے مکالمہ اور ان پر وحی (حم سجدہ11-12:43)۔
اس وحی کی نوعیت کیا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ غیب کے حقائق پر مطلع کرنے والی اصطلاحی وحی کا بیان نہیں بلکہ وحی کا لفظ یہاں لغوی مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور اس تکوینی نظام کا بیان ہے جس میں ساری مخلوقات اللہ کے حکم کی فرمانبردار ہے۔ اس تکوینی نظام میں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کو احکام جاری کرتے ہیں۔ یہ مقامات اسی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر وحی (القصص7:28) کا ذکر ہے۔ اسی طرح حضرت مریم کے پاس فرشتوں کے آنے اور ان سے مکالمے کا ذکر ہے۔ (آل عمران 42-43:3، مریم 19-21:19)۔
اس معاملے کی حقیقت کیا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں واقعات پیغمبروں سے متعلق ہی تھے جن کا ظہور ان کی ماؤں کے ذریعے سے ہونا تھا۔ یعنی حضرت موسیٰ کا دریا کے ذریعے فرعون کے محل میں پہنچنا اور حضرت عیسیٰ کا بغیر باپ کے پیدا ہونا۔ اس پس منظر میں جس وقت ضرورت ہوئی، پیغمبروں کی ماؤں کے ساتھ معاملہ کیا گیا۔ اس سے کوئی عمومی کلیہ بر آمد نہیں ہوتا۔
تیسرا سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی وحی کا قرآن میں ذکر نہ ہونا کیا اس بات کو لازمی کر دیتا ہے کہ آئندہ کسی فرد پر وحی نہیں ہوسکتی؟
اس بات کا جواب یہ ہے کہ وحی ونبوت کا معاملہ ایمانیات کا ہے۔ ایمانیات میں اضافہ گمراہی کی وہ قسم ہے جو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ محض ہمارا خیال نہیں قرآن مجید کا اعلان ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بطور ایک نبی کے مبعوث کیے گئے۔ مگر مسیحی متکلمین نے فلسفیانہ اور منطقی مباحث میں الجھ کر انھیں نبی کے منصب سے اٹھا کر اس خود ساختہ خدائی تثلیث کا ایک حصہ بنا دیا جس کا الہامی کتابوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مسیحی حضرات کا یہ عمل جو دراصل ایمانیات میں کیا گیا ایک اضافہ یا تبدیلی تھی اور قطع نظر اس کے کہ کسی بھی وجہ سے کی گئی تھی، اسے اللہ تعالیٰ نے کفر سے تعبیر کیا ہے، (المائدہ73:5)۔
ایمانیات میں اضافے کو کفر قرار دینے کا یہی خدائی فیصلہ اس بات میں مانع تھا کہ حضور کے بعد کسی وحی کی گنجائش مانی جاتی، مگر قرآن مجید نے ختم نبوت کی مشہور آیت (الاحزاب40:33) میں واضح طور پر اپنا فیصلہ سنا دیا کہ نبوت کا وہ سلسلہ جس کا دارومدار آسمانی وحی پر تھا، حضور نبی کریم کی ہستی اس کے لیے خاتم کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب نہ غیب کی خبریں دینے کے لیے وحی نازل ہوگی نہ نبوت کا بند دروازہ کبھی کھلے گا۔
مسلمانوں میں حضور کے بعد وحی و الہام کے دعوے ہوں یا نبوت کے دعویدار، سب انھی قرآنی بیانات کی روشنی میں باطل قرار پاتے ہیں۔
کوئی منطقی بحث، کوئی اجتہادی رائے، کوئی ذاتی مشاہدہ، کوئی دعویٰ، کوئی دلیل و استنباط اور کوئی یقین قرآن مجید کے فیصلے کو نہیں بدل سکتا۔ لوگوں کو آج یہ حق حاصل کہ جو چاہیں بولتے اور لکھتے رہیں۔ یہ حق لوگوں کو اللہ نے خود دیا ہے۔ مگر قرآن مجید کی روشنی میں ان کی ہر بحث باطل ہے۔ ان کا ہر اجتہاد باطل ہے۔ ان کا ہر مشاہدہ باطل ہے۔ ان کا ہر دعویٰ باطل ہے۔ ان کی ہر دلیل، ہر استنباط اور ہر یقین باطل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور قرآن مجید کے بعد کوئی وحی نہیں اترسکتی۔ لوگوں کو جو ماننا ہے وہ مانتے رہیں، مگر قرآن مجید کی بات اپنی جگہ بالکل واضح ہے۔
By Abu Yahya
Sponsor Ask Ghamidi
The discussion "آخری وحی" is closed to new replies.