-
ختم نبوت کے بعد وحی
انبیا کی تعلیمات کا سب سے بنیادی پہلو ایمانیات ہوتا ہے۔ قرآن مجید کا خصوصی موضوع یہی ایمانیات ہے۔ اس باب میں قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس میں ایمانیات کی انتہائی تفصیل کر دی گئی ہے اور ان کے مختلف پہلوؤں کو بار بار اس طرح دہرایا گیا ہے کہ حق کے کسی سچے متلاشی کے لیے اسے سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں۔
اس تفصیل کی جہاں اور بہت سی وجوہات تھیں وہیں ایک وجہ یہ تھی کہ ہر امت وقت گزرنے کے ساتھ نبیوں کی تعلیمات میں تبدیلی اور اضافے کر دیا کرتی تھی۔ مثلاً فرشتوں کا یہ کردار سابقہ انبیا کی تعلیم میں موجود تھا کہ وہ خدائی فیصلوں کو نافذ کرتے ہیں۔ اسی چیز کو لے کر مشرکین نے فرشتوں کو خدائی نظام میں اللہ کا شریک بنا دیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں یہ بتایا گیا کہ فرشتے خدا کے بندے ہیں جو اس کے حکم سے مختلف کام کرتے ہیں۔ وہ خود اللہ تعالیٰ کی خدائی میں کسی پہلو سے شریک نہیں ہیں۔ یوں قرآن مجید میں ہر ہر گمراہی کا ازالہ کرکے صحیح اور مطلوب بات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کی حفاظت کے خدائی اہتمام (الحجر9:15) کے بعد یہ ممکن نہیں رہا کہ ان ایمانیات میں کوئی تبدیلی کی جاسکے۔ البتہ یہ دروازہ ابھی کھلا ہوا ہے کہ ان میں اضافہ کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر ممکن ہے کہ فرشتوں کے اس نظام سے متاثر ہوکر یہ تصور قائم کرلیا جائے کہ انسانوں میں سے بھی کچھ رجال ہیں جو دنیا کا انتظام و انصرام چلا رہے ہیں۔ یہ کام ظاہر ہے کہ وہ اپنی مرضی سے تو نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ براہ راست غیب کی اس دنیا سے متعلق ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی دنیا ہے اور اللہ کی طرف سے ان پر وحی و الہام بھی ہوتا ہے۔
یہ تصورات کوئی شخص چاہے قائم کرلے، ہمارے پیش نظر یہ بات واضح کرنا ہے کہ ایسے تصورات کا قرآن مجید سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ چیز قرآن مجید کے خلاف ہے کہ کسی مخلوق کے متعلق یہ مانا جائے کہ وہ کائناتی نظام چلانے میں فرشتوں کے شریک ہیں۔ قرآن مجید بالکل واضح ہے کہ یہ فرشتے ہیں جو اللہ کے اذن سے ہر معاملے کا حکم لے کر نازل ہوتے ہیں، (القدر4:97)۔ اس طرح کی آیات میں ”کل امر“ کے الفاظ بالکل واضح کر دیتے ہیں کہ نظام کائنات سے متعلق تمام خدائی فیصلوں کا نفاذ فرشتے کرتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ کچھ کام فرشتے اور کچھ مردان غیب کرتے ہوں۔
اسی طرح یہ چیز بھی قرآن مجید کے قطعاً خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیا کے علاوہ کسی اور انسان پر وحی کریں۔ وحی غیب کی وہ خبر ہے جو انسانوں میں سے صرف حضرات انبیا کو دی جاتی ہے۔ قرآن مجید اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ باقی تمام انسانوں کو غیب میں رہ کرایمان لانا ہے۔ قرآن مجید بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا غیب کسی انسان پر ظاہر نہیں کرتے سوائے انبیا و رسل کے،(آل عمران179:3)۔ حضرات انبیا علیھم السلام کی اصل خصوصیت اور ان کو نبی بنانے والی چیز ہی یہ حقیقت ہے کہ ان پر وحی نازل ہوتی ہے۔ ان کو غیب کے ان سارے معاملات کی خبر دے دی جاتی ہے جن کا ابلاغ باقی انسانوں تک کرنا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہوتا ہے۔
امور غیب کے حوالے سے دی جانے والی یہ وحی کس طرح انبیا علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے اور کس طرح ختم نبوت کے بعد اس کا دروازہ بند ہوچکا ہے، اس پر ہم ایک الگ مضمون بعنوان ”آخری وحی“ میں بات کرچکے ہیں۔ جو چیز یہاں واضح کرنا مقصود ہے کہ وہ یہ ہے کہ ختم نبوت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے بیان کردہ ایمانیات کے تحفظ کا دہرا انتظام کیا ہے۔ ایک یہ کہ ایمانیات کو جزئیات کی سطح تک جاکر ان کی تفصیلات کو قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے تاکہ غلط فہمی کا ہر دروازہ بند ہوجائے۔ مزید یہ کہ قرآن مجید چونکہ کتاب محفوظ ہے اس لیے ان میں تبدیلی کرنا بھی ممکن نہیں۔
دوسرا انتظام ان اضافوں کو روکنے کے لیے ہے جن کی ایک مثال اوپر گزری ہے۔ وہ انتظام یہ ہے کہ دین میں ہر قسم کے اضافے کو ایک سنگین جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ اس عمل کو اللہ پر جھوٹ باندھنے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اللہ کی آیات کو جھٹلانے جیسا جرم قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں کثرت کے ساتھ ایسے بیانات موجود ہیں جو اس پورے عمل کی شناعت کو واضح کرتے ہیں مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
”سو اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اُس کی آیتوں کو جھٹلا دے؟ حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کے مجرم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔“،(یونس17:10)
”کہہ دو، میرے پروردگار نے تو صرف اس کوحرام کیا ہے…… اور اِس کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیراؤ، جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اِس کو کہ تم اللہ پر افترا کرکے کوئی ایسی بات کہو جسے تم نہیں جانتے۔“،(الاعراف33: 7)
”تم اپنی زبانوں کے گھڑے ہوئے جھوٹ کی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اِس طرح اللہ پر جھوٹ باندھنے لگو۔ یاد رکھو، جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھیں گے، وہ ہرگز فلاح نہ پائیں گے۔“،(النحل116:16)
”اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹی تہمت باندھے یا کہے کہ میری طرف وحی آئی ہے، دراں حالیکہ اُس کی طرف کوئی وحی نہ آئی ہو اور اُس سے بڑھ کر جو دعویٰ کرے کہ میں بھی اُس جیسا کلام نازل کیے دیتا ہوں، جیسا خدا نے نازل کیا ہے؟“، (الانعام93:6)
قرآن مجید کے بہت سے بیانات میں سے یہ چند ہیں جو بتاتے ہیں کہ حضرات انبیا کی وحی سے ملنے والے علم کے بغیر جب کسی چیز کو دین یا ایمان کے طور پر بیان کیا جاتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب کس طرح بھڑکتا ہے۔ نزول قرآن کے وقت اصل مسئلہ یہی تھا کہ قدیم انبیا کی تعلیمات میں تبدیلی یا اضافے کر کے اپنے تصورات کو دین بنا دیا گیا تھا۔
قرآن مجید نے عرب میں رائج ان غلط تصورات میں سے ایک ایک کی بھرپور تردید بھی کی اور ساتھ میں یہ اصول بھی دے دیا کہ اللہ کے دیے ہو ئے دین میں اپنی طرف سے اضافہ کرنا اللہ تعالیٰ پر بہتان لگانے کے مترادف ہے۔
اب قیامت تک کے لیے ایک بندۂ مومن کے پاس یہی راستہ ہے کہ وہ قرآن مجید میں بیان کردہ ایمانیات کو مانے اور خود کو اسی تک محدود کر دے۔ ان میں اضافے اور تبدیلی کا کوئی سوال ہی نہیں۔ ہاں جو ایمانیات بیان ہوئے ہیں، ان کی شرح و وضاحت کی جاسکتی ہے۔ ان کی تفصیلات کو عوام کو سمجھانے اور بتانے پر بھی کسی طرح کی پابندی نہیں۔ اہل علم کو اپنے آپ کو یہیں تک محدود رکھنا چاہیے۔ ایمانیات میں اضافہ، تبدیلی، ان کے اطلاق کو بدلنا، ان کی تعداد کو بدلنا؛ ایسی ہر چیز قرآن مجید کے خلاف ہے۔ چاہے یہ کسی کو کتنی ہی اچھی لگے۔ چاہے یہ چیزیں لوگوں میں کتنی ہی مقبول کیوں نہ ہوجائیں۔ مگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ایسی ہر چیز قابل رد ہے۔ اسی بات کو پورے دین کے حوالے سے حضور کی جوامع الکلم ہستی نے یوں بیان فرمایا۔
من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد،(بخاری،رقم2697،مسلم،رقم1718)
جس شخص نے ہمارے اس حکم (دین) میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔
By Abu Yahya
Sponsor Ask Ghamidi