:تفہیم القرآن
ابن عمر کا قول ہے کہ یہ اس وقت ہوگا جب زمین کوئی نیکی کا حکم کرنے والا اور بدی سے روکنے والا باقی نہ رہے گا ۔ ابن مردویہ نے ایک حدیث ابو سعید خدری سے نقل کی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ یہی بات انہوں نے خود حضور سے سنی تھی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیں گے تو قیامت قائم ہونے سے پہلے اللہ تعالی ایک جانور کے ذریعہ سے آخری مرتبہ حجت قائم فرمائے گا ۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ ایک ہی جانور ہوگا یا ایک خاص قسم کی جنس حیوان ہوگی جس کے بہت سے افراد روئے زمین پر پھیل جائیں گے ۔ دابۃ من الارض کے الفاظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے ، بہر حال جو بات وہ کہے گا وہ یہ ہوگی کہ لوگ اللہ تعالی کی ان آیات پر یقین نہیں کرتے تھے جن میں قیامت کے آنے اور آخرت برپا ہونے کی خبریں دی گئی تھیں ، تو لو اب اس کا وقت آن پہنچا ہے اور جان لو کہ اللہ کی آیات سچی تھیں ، یہ فقرہ کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے یا تو اس جانور کے اپنے کلام کی نقل ہے ، یا اللہ تعالی کی طرف سے اس کے کلام کی حکایت ، اگر یہ اسی کے الفاظ کی نقل ہے تو ہماری کا لفظ وہ اسی طرح استعمال کرے گا جس طرح ایک حکومت کا ہر کارندہ ہم کا لفظ اس معنی میں بولتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کی طرف سے بات کررہا ہے نہ کہ اپنی شخصی حیثیت میں ۔ دوسری صورت میں بات صاف ہے کہ اللہ تعالی اس کے کلام کو چونکہ اپنے الفاظ میں بیان فرما رہا ہے اس لیے اس نے ہماری آیات کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔
اس جانور کے نکلنے کا وقت کون سا ہوگا ؟ اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا اور ایک روز دن دہاڑے یہ جانور نکل آئے گا ، ان میں سے جو نشان بھی پہلے ہو وہ بہرحال دوسری کے قریب ہی ظاہر ہوگی ( مسلم ) دوسری روایات جو مسلم ، ابن ماجہ ، ترمزی اور مسند احمد وغیرہ میں آئی ہیں ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ قیامت کے قریب زمانے میں دجال کا خروج ، دابۃ الارض کا ظہور ، دخان ( دھواں ) اور آفتاب کا مغرب سے طلوع وہ نشانیاں ہیں جو یکے بعد دیگرے ظاہر ہوں گی ۔
اس جانور کی ماہیت ، شکل و صورت ، نکلنے کی جگہ اور ایسی ہی دوسری تفصیلات کے متعلق طرح طرح کی روایات نقل کی گئی ہیں جو باہم بہت مختلف اور متضاد ہیں ۔ ان چیزوں کے زکر سے بجز ذہن کی پراگندگی کے اوپر کچھ حاصل نہیں ہوتا اور ان کے جاننے کا کوئی فائدہ بھی نہیں کیونکہ جس مقصد کے لیے قرآن میں یہ ذکر کیا گیا ہے اس سے ان تفصیلات کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
رہا کسی جانور کا انسانوں سے انسانی زبان میں کلام کرنا ، تو یہ اللہ کی قدرت کا ایک کرشمہ ہے ، وہ جس چیز کو چاہے نطق کی طاقت بخش سکتا ہے ۔ قیامت سے پہلے تو وہ ایک جانور ہی کو نطق بخشے گا ، مگر جب وہ قیامت قائم ہوجائے گی تو اللہ کی عدالت میں انسان کی آنکھ اور کان اور اس کے جسم کی کھال تک بول اٹھے گی ، جیسا کہ قرآن میں بتصریح بیان ہوا ہے حَتّىٰٓ اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ، وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْٓ اَنْــطَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۔ ( حم السجدہ ، آیات 20 ۔ 21 )
:البیان
یعنی اپنے وجود سے یہ حقائق واضح کر دے گا۔آیت میں اِس کے لیے ’تُکَلِّمُھُمْ‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ اُسی مفہوم میں ہے، جس مفہوم میں یہ سورۂ روم (۳۰) کی آیت ۳۵ میں ہے۔ یہ اِس لیے ہو گا کہ جو لوگ خدا کے آخری پیغمبر کی بات بھی سننے کے لیے تیار نہ ہوں، اُن پرپھر جانوروں ہی کو گواہی دینی چاہیے۔ تاہم اِس کی نوبت نہیں آئی، اِس لیے کہ قریش کے بیش تر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں بھی لوگوں کے ساتھ اِسی طرح کا معاملہ ہوگا اور اُن پر گواہی کے لیے اِسی نوعیت کا ایک ’دَآبَۃُ الْاَرْضِ‘ نکال کھڑا کیا جائے گا۔