The ayah is talking about the language. It doesn’t say it’s for Arabs only.
وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا اَعۡجَمِیًّا لَّقَالُوۡا لَوۡ لَا فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ ؕ ءَؔاَعۡجَمِیٌّ وَّ عَرَبِیٌّ ؕ قُلۡ ہُوَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہُدًی وَّ شِفَآءٌ ؕ وَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرٌ وَّ ہُوَ عَلَیۡہِمۡ عَمًی ؕ اُولٰٓئِکَ یُنَادَوۡنَ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿۴۴﴾
(کہتے ہیں کہ یہ یاددہانی پہلی کتابوں کی زبان میں کیوں نہیں اتاری [57] گئی)؟ ہم اگر اِس قرآن کو عجمی قرآن بنا کر اتارتے تو اُس وقت یہ اعتراض اٹھاتے کہ اِس کی آیتیں (خود ہماری زبان میں) کھول کر بیان کیوں نہیں کی گئیں؟ کیا تعجب کی بات ہے کہ کلام عجمی اور مخاطب عربی! اِن سے کہو، ایمان والوں کے لیے تو یہ ہدایت ہے اور (دل کی بیماریوں کی) شفا ہے۔ رہے وہ لوگ جو ایمان نہیں لا رہے تو اُن کے کانوں میں، البتہ یہ گرانی ہے اور اُن کے اوپر یہ ایک حجاب بن گیا [58] ہے۔ یہی ہیں جو (قیامت کے دن) اب کسی دور کی جگہ سے پکارے جائیں [59] گے۔
جاوید احمد غامدی
جاوید احمد غامدی
57 یہ اعتراض غالباً یہود کا القا کیا ہوا ہے کہ اِس سے پہلے اگر تمام الہامی کتابیں ہماری زبان میں اتری ہیں تو یہ نئی کتاب عربی زبان میں کیوں نازل کی گئی ہے؟ اِس طر ح کے اعتراضات، ظاہر ہے کہ وہ بنی اسمٰعیل کو قرآن جیسی نعمت سے محروم کرنے کے لیے ایجاد کرتے تھے، لیکن قریش کے نادان لیڈر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے جوش میں اِنھی کو آگے نقل کرنا شروع کر دیتے تھے۔