Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums General Discussions Da'if (weak) And Mauzu (fabricated) Ahadith

Tagged: 

  • Da'if (weak) And Mauzu (fabricated) Ahadith

    Posted by Sheharbano Ali on July 10, 2020 at 7:24 am

    Can we use a da’if hadith to promote good? Similarly, what if a hadith is mauzu (fabricated) but does not go against the Quran in principle? Could we still use it as a source?

    $ohail T@hir replied 4 years, 5 months ago 3 Members · 2 Replies
  • 2 Replies
  • Da'if (weak) And Mauzu (fabricated) Ahadith

    $ohail T@hir updated 4 years, 5 months ago 3 Members · 2 Replies
  • Umer

    Moderator July 10, 2020 at 10:23 am
  • $ohail T@hir

    Moderator July 11, 2020 at 10:56 pm

    فضائل کا مذہب؟

    سترہ رمضان ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا یومِ وفات تھا۔ اکیس رمضان امیر المومنین سیدناعلی ؓ کا یومِ شہادت ہے۔

    ہر سال اخبارات ایڈیشن شائع کرتے ہیں۔ ٹی وی چینلز بھی حسبِ توفیق اپنے وقت کا انفاق کرتے ہیں۔ دونوں کا موضوع ایک ہی ہوتا ہے: فضائل۔دونوں شخصیات کی عظمت کے باب میں کیا کلام ہے۔ ایک تا قیامت مومنین کی ماں اور دوسرے پہلے مسلمان اور پیغمبر کے صحابی۔امہات المومنین اورصحابہ دونوں کے بارے میں، اللہ کی آخری کتاب گواہی دیتی ہے کہ وہ عالم میں انتخاب ہیں۔ میرا سوال مگر دوسرا ہے: کیا اسلام محض فضائل کا مذہب ہے؟

    واعظین اور مسلکی خطیبوں نے عام مسلمان کو فضائل کا خوگر بنادیا ہے۔ایک طرف اعمال کے فضائل کی روایات بیا ن ہو رہی ہیں اور دوسری طرف شخصیات کے فضائل کی۔ دین کی حقیقت ان کے درمیان کہیں کھو گئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ قرآنِ مجید میں بیان ہوئی ہے اور لوگوں نے قرآن کے علاوہ نصاب بنا رکھے ہیں۔ اس رویے نے دین کو جو نقصان پہنچایاہے، کاش ان واعظوں اور خطیبوں کو اس کا اندازہ ہوتا۔

    محدثین نے عمریں کھپا دیں، اس کوشش میں ہے کہ اللہ کے رسول سے کوئی ایسی بات منسوب نہ ہو پائے جو آپ نے فرمائی نہ ہو۔اسماء الرجال کا وہ علم وجود میں لائے جو انسان کی علمی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ انہیں اندازہ تھا کہ قولِ رسول کی اہمیت کیا ہے؟ یہ کھیل تماشا نہیں جسے سہل انگاری کی نذر کر دیا جائے۔ وہ سنگریزوں میں ہیرے تلاش کر تے رہے کہ عام لوگوں کی باتوں میں پیغمبر کی بات ایسے ہی ہے جیسے پتھروں میں نیلم والماس۔امام بخاری کو لاکھوں سنگریزوں میں سے چند ہزار ہیرے ہی مل سکے۔ امت کی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ ان روایات پربھی تنقید کا باب کبھی بند نہیں ہوا۔ متقدمین میں امام دارقطنی نے بخاری کی اسی روایات پر نقد کیا ہے۔ متاخرین میں امام البانی نے اس چراغ کو روشن رکھا۔

    روایت کے پہلو سے حدیث کی بہت سی اقسام ہیں۔ صحیح،حسن اورضعیف سے وہ سب واقف ہیں جنہیں دینی موضوعات سے کچھ بھی دلچسپی ہے۔ ’موضوع‘روایت اگر چہ حدیث نہیں ہوتی لیکن، حدیث کی کتابوں میں اس کامسمّیٰ پایا جاتا ہے، اس لیے اس اصطلاح کی ضرورت پیش آئی۔ اس کا مطلب ہے:وضع کی گئی،گھڑ ی ہوئی۔

    محدثین نے عرق ریزی کی تومعلوم ہوا کہ کچھ لوگ اچھے برے محرکات کے تحت بلا تکلف ’احادیث‘ گھڑ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے اس کے اسباب کا کھوج لگانے کی کوشش کی اور یوں علم ِ حدیث کی کتابوں میں ایک باب قائم ہوا: “وضعِ حدیث کے محرکات”۔ تحقیق کے جو نتائج سامنے آئے، ان کے مطابق لوگوں نے عام طور پر دو بڑے اسباب سے حدیثیں گھڑیں۔ ایک عام افراد کو دین اور نیکی کی طرف راغب کرنے کے لیے۔دوسرااپنے فرقے کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے۔

    پہلے سبب سے وہ روایات وجود میں آئیں جوفضائلِ اعمال کے باب میں بیان ہو تی ہیں۔محدثین نے اس کی روک تھام کے لیے ایک اصول، مثال کے طور پر، یہ بیان کیاکہ جس روایت میں ایک چھوٹی سی نیکی کا بڑااجراور چھوٹی سی برائی کی بڑی سزابیان ہو، وہ موضوع ہے۔ اسی طرح جب اقتدار پر قبضے کے لیے مختلف گروہوں میں کشمکش ہوئی تو انہوں نے اپنے اپنے موقف کے حق میں افسانے تراشے۔ اس سے وہ روایات سامنے آئیں جن کا تعلق افراد کے فضائل سے ہے۔

    مقبول واعظین اور ذاکرین کا انحصار ان دو طرح کی روایات پر ہے۔ سوشل میڈیا پرجومذہبی مواد میسر ہے، اس کو دیکھ ڈالیے۔ آپ کو اسی طرح کی تقریریں ملیں گی۔ ٹی وی چینلزکے مذہبی پروگراموں میں وہی لوگ گفتگو کر رہے ہیں جو فضائل کے ماہر ہیں۔آد می سوچتا ہے کہ اگر یہ دین ہے تو پھر وہ ہدایت کہاں ہے جس کو اللہ کے آخری رسولﷺ لے کر آئے؟

    وہ ہدایت قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ اس کو رسالت مآب ﷺ نے بطور عملِ متواتر اس امت میں رائج کر دیا ہے۔ وہ آپ کے اسوہ حسنہ میں ہے جس کا مصدقہ ریکارڈ، محدثین اور سکالرز کی محنت سے محفوظ ہے۔ آدمی قرآن مجید پڑھے، اس سنت ِ متواترہ کو جانے اور آپ کے حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کرے تو حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ جو میں دیکھ اور سن رہا ہوں، وہ ان میں کہاں ہے؟

    روایات کے باب میں اس تساہل کے دو نتائج ظاہر و باہر ہیں: افراط و تفریط اور فرقہ واریت۔افراط و تفریط کی وجہ سے عقائد اوراعمال کی ترتیب بدل گئی۔ مثال کے طور پر توحید عقیدے کے اعتبار سے دین کا جوہر ہے۔ قرآن مجید سے پوچھیے تو وہ بتائے گا کہ توحید ہے کیا اور دین میں اس کی اہمیت کیا ہے۔ اس کے بعد ان مبلغین کے وعظ سنیں۔ آپ کو ایک دو تقریرں سن کر ہی اندازہ ہو جائے گا کہ توحید اب دین میں اس طرح اساسی نہیں ہے جس طرح اللہ کی کتاب بیان کر تی ہے۔

    اعمال کا معاملہ یہ کہ قرآن مجید کے مطابق نمازاورانفاق فی سبیل اللہ یعنی زکوۃ وصدقات کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔آج جو دین بیان کیا جاتا ہے، اس کو ناپنے کا پیمانہ عشق ہے، اعمال نہیں۔دین کے ماخذ کے لیے یہ ایک اجنبی اصطلاح ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نماز روزہ ضمنی امور ہیں۔ اصل چیز عشق ہے۔یہ بات میری سمجھ میں آج تک

    نہیں آ سکی کہ نماز کے بغیر خدا کے ساتھ محبت کا کوئی دعویٰ کس طرح سچا ہو سکتا ہے؟ جو واعظ نماز کی اہمیت بیان کرتے تھے، سنا ہے،وہ بھی اب فضائل پر کتابیں لکھ رہے ہیں۔ افراط و تفریط کا یہی نتیجہ ہو سکتاتھا۔

    فرقہ واریت نے شخصی فضائل کی روایات کا جنم دیا۔ یوں آج ان کی بنیاد پر مسلکی اور فرقہ وارانہ مقدمات قائم ہو رہے ہیں۔ فرقہ پرست لوگوں کی تقریروں میں ان کا غلبہ ہے۔ مزید ستم یہ ہوا کہ ان روایات کو بنیاد مان کر قرآن مجید کی تاویل کی جانی لگی۔ ان آیات کی، جن کے الفاظ کی دلالت اپنے مفہوم میں قطعی ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ ان تاویلات کو قبول کرتے ہیں نہ اسالیبِ کلام لیکن بیان ہو رہے ہیں اور ان کی بنیاد پر وہ صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے جس کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا ہے

    احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر

    تاویل سے قرآں کو بناسکتے ہیں پاژند

    امہات المومنین کے بارے میں قرآن مجید نے بتایا کہ وہ عام عورتوں کی طرح نہیں ہیں۔ انہیں عالم کے پروردگارنے یہ ذمہ داری سونپی کہ ان کے گھر میں اللہ کی آیات اور اور اس کی حکمت کی جو تعلیم دی جاتی ہے،وہ اس کا چرچا کریں۔(احزاب33:34)۔اس ذمہ داری کو سیدہ عائشہؓ نے اس شان کے ساتھ نبہایا کہ پوری امت ان کے احسان کے زیرِ بار ہے۔ امیر المومنین سیدناعلیؓ کا معاملہ یہ ہے کہ فتنہ وفساد کے دور میں بھی وہ جس طرح حق پر قائم رہے اور حسنِ کردار کا نمونہ بنے رہے، اس نے زبانِ حال سے بتا دیا کہ اللہ کے پیغمبر کے صحبت یافتہ کیسے ہوتے ہیں۔ان کی فضیلت کے بیان کے لیے قرآن مجید اور صحیح روایات کفایت کرتی تھیں۔

    ام المومنین کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق جوڑا جاتا نہ امیر المومنین کا، اگر ہم نے اپنے معاملات میں قرآن مجید کو فرقان اور میزان مانا ہوتا۔ جب ہم نے اس کو چھوڑا اور وضعی روایات کو اختیار کیا تو دین افراط وتفریط اور امت فرقہ وایت کا شکار ہو گئی۔ دو دن پہلے سیدہ کا دن منایا گیا۔اکیس رمضان سیدنا علیؓ کا یومِ شہادت ہے۔فضائل کی روایات بیان ہو رہی ہیں اورہم اپنی گروہی عصبیت کو مضبوط کررہے ہیں۔ ستم در ستم کہ رمضان میں قرآن مجید کا بیان ہوگاتو وہ بھی فضائل کے پیرائے میں۔اس میں درج ہدایت کی طرف کم ہی نگاہیں اٹھیں گی۔

    حقیقت خرافات میں کھو گئی

    یہ امت روایات میں کھو گئی

    Khurshid Nadeem

You must be logged in to reply.
Login | Register