حضرت معاویہ نے ختم نہیں کی، حالات نے ختم کی۔ زمینی حقائق جب تک موافق نہ ہوں درست اصولوں پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ غلامی کے مسئلے ہی کو لے لیجیے۔ مثالی کام یہ تھا کہ انھں فورا آزاد کر دیا جاتا ۔مگر یہ خلاف مصلحت تھا اس لیے انھیں بتدریج آزاد کرنے کا سلسلہ قائم کیا گیا۔ اور اس دوران میں ان کی خرید و فروخت اور دوسرے کام جو ان سے لیے جاتے تھے وہ جاری رہے۔
رسول اللہ ﷺ نے جو تبدیلی پیدا کی تھی وہ غیر معمولی تھی، اور یہ تبدیلی اللہ کے خاص انتظآمات کے تحت ہوئی تھی۔ ورنہ سماج میں ابھی اتنا ارتقا نہیں ہوا تھا کہ وہ خالص شورائیت پر چلنے کے قابل ہو۔ حضرت معاویہ اگر اس وقت شورائیت کی بات کرتے تو کسی ایک آدمی پر اتفاق ممکن نہیں تھا۔ اس لیے انھیں وہ کرنا پڑا جو اس وقت دنیا میں چل رہا تھا ۔مسلمانوں کی اجمتماعیت کے لیے یہ ضروری تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی تربیت کے بعد بھی سقیفہ بنی ساعدہ مین صحابہ میں اختلاف ہو گیا تھا۔ اب بھی اختلاف ہی ہونا تھا۔ اور اس کا کوئی حل پھر اس کے سوا نہ رہتا جو لوگ لڑ پڑتے۔
پھر یہ دیکھیے کہ باپ کے بعد بیٹا کو خلیفہ بنانے کی مثال حضرت معاویہ نے نہیں، حضرت حسن سے قائم ہوتی ہے جنھیں لوگوں نے حضرت علی کے بعد خلیفہ چن لیا تھا۔ کیونکہ ان کے پاس بھی اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اب یہی راستہ عملا رہ گیا تھا۔
بنو امیہ کے خلاف بنو ہاشم جو لڑتے رہے تو اس سے بھی ان کا مقصود بنو ہاشم کی موروثی حکومت قائم کرنا ہی تھا۔ یعنی ہر ایک کے پاس ایک ہی حل تھا۔
سماج کے ارتقا میں صدیان لگتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے جو سماج تشکیل دیا تھا وہ عام حالات پر مبنی نہیں تھا۔ اس لیے صحابہ کے کمزور پڑتے ہی وہ نظام چل نہ سکا۔ اور نہ ہی چل سکتا تھا۔