Ghamidi Sahab nai apnay tarjumay main Dunya ki zindagi ki muddad kai maani main hi liya hai:
یَّتَخَافَتُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا عَشۡرًا ﴿۱۰۳﴾ نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ اِذۡ یَقُوۡلُ اَمۡثَلُہُمۡ طَرِیۡقَۃً اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا یَوۡمًا ﴿۱۰۴﴾
وہ چپکے چپکے آپس میں کہتے ہوں گے کہ تم (دنیا میں) مشکل سے دس دن رہے ہو [130] گے۔
ہمیں خوب معلوم ہے جو کچھ وہ کہیں گے، جب کہ اُن میں سے جو (اُن کے خیال میں) سب سے بہتر اندازہ لگانے والا ہوگا، وہ کہے گا کہ تم ایک دن سے زیادہ نہیں رہے ہو۔
(Quran 20:103-104)
__________________________
[130] یعنی جس کو آج بہت دور کی چیز سمجھتے اور ’حدیث خرافۃ‘ کہتے ہیں، اُس وقت اُس کے بارے میں اِس طرح کے اندازے لگا رہے ہوں گے۔
قٰلَ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ عَدَدَ سِنِیۡنَ ﴿۱۱۲﴾ قَالُوۡا لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ فَسۡـَٔلِ الۡعَآدِّیۡنَ ﴿۱۱۳﴾ قٰلَ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا لَّوۡ اَنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۱۴﴾
(اُس وقت) ایک کہنے والا کہے [212] گا: برسوں کے شمارسے تم کتنی مدت زمین میں رہے ہو گے؟
وہ جواب دیں گے: ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، مگر یہ بات تم اُن سے پوچھو جو شمار کرنے والے [213] ہوں۔
کہنے والا کہے گا: تم تھوڑی ہی مدت رہے۔ اے کاش، تم جانتے [214] ہوتے۔
(Quran23:112-114)
____________________________
[212] اصل میں ’قٰلَ‘ کا لفظ ہے۔ اِس کا فاعل اللہ تعالیٰ یا اُس کا کوئی فرشتہ نہیں ہے، بلکہ یہ یہاں ’قَالَ قَائِلٌ‘ کے مفہوم میں ہے۔ سورۂ طٰہٰ (۲۰) کی آیات ۱۰۲-۱۰۴ میں اِس کی وضاحت ہو گئی ہے کہ یہ مکالمہ اِنھی لوگوں کے درمیان آپس میں ہوگا۔
[213] یہ جواب دینے والوں کی طرف سے بے زاری کا اظہار ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، گویا جس زندگی کے طول اور اُس کے عیش پر ریجھے ہوئے تھے، آج اُس کے متعلق کوئی سوال بھی طبیعت پر گراں گزر رہا ہے۔
[214] یعنی اِس بات کو جانتے کہ یہی تھوڑی سی مدت ہے جو خدا نے ابدی نعمت یا نقمت کو پانے کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔