Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Zihar Directive (Quran 58:1-4)

Tagged: ,

  • Zihar Directive (Quran 58:1-4)

    Posted by Rafi Sheikh on September 1, 2021 at 4:40 am

    اسلام و علیکم

    بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِیمِ قَدۡ سَمِعَ ٱللَّهُ قَوۡلَ ٱلَّتِی تُجَـٰدِلُكَ فِی زَوۡجِهَا وَتَشۡتَكِیۤ إِلَى ٱللَّهِ وَٱللَّهُ یَسۡمَعُ تَحَاوُرَكُمَاۤۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِیعُۢ بَصِیرٌ ﴿ ١ ﴾

    • ابوالاعلی مودودی:

    اللہ نے سُن لی اُس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے۔ اللہ تم دونوں کی گفتگو سُن رہا ہے، وہ سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے (1)

    Al-Mujadila, Ayah 1

    ٱلَّذِینَ یُظَـٰهِرُونَ مِنكُم مِّن نِّسَاۤىِٕهِم مَّا هُنَّ أُمَّهَـٰتِهِمۡۖ إِنۡ أُمَّهَـٰتُهُمۡ إِلَّا ٱلَّـٰۤـِٔی وَلَدۡنَهُمۡۚ وَإِنَّهُمۡ لَیَقُولُونَ مُنكَرࣰا مِّنَ ٱلۡقَوۡلِ وَزُورࣰاۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورࣱ ﴿ ٢ ﴾

    • ابوالاعلی مودودی:

    تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں،ا ن کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ یہ لوگ ایک سخت ناپسندیدہ اور جُھوٹی بات کہتے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔ (2)

    Al-Mujadila, Ayah 2

    براہ کرم اس کی تفسیر یا راہنمائ کر دی جاے

    جزاکالّلہ

    Rafi Sheikh replied 3 years, 2 months ago 2 Members · 3 Replies
  • 3 Replies
  • Zihar Directive (Quran 58:1-4)

    Rafi Sheikh updated 3 years, 2 months ago 2 Members · 3 Replies
  • Umer

    Moderator September 1, 2021 at 6:30 am

    قَدۡ سَمِعَ اللّٰہُ قَوۡلَ الَّتِیۡ تُجَادِلُکَ فِیۡ زَوۡجِہَا وَ تَشۡتَکِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ٭ۖ وَ اللّٰہُ یَسۡمَعُ تَحَاوُرَکُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ ﴿۱﴾

    اَلَّذِیۡنَ یُظٰہِرُوۡنَ مِنۡکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِہِمۡ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمۡ ؕ اِنۡ اُمَّہٰتُہُمۡ اِلَّا الِّٰٓیۡٔ وَلَدۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَیَقُوۡلُوۡنَ مُنۡکَرًا مِّنَ الۡقَوۡلِ وَ زُوۡرًا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوۡرٌ ﴿۲﴾

    اللہ نے اُس عورت کی بات سن لی ہے [44] جو تم سے اپنے شوہر کے معاملے میں جھگڑ رہی تھی [45] اور اللہ سے فریاد کیے جاتی تھی۔ اللہ تم دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔ بے شک، اللہ سمیع و بصیر [46] ہے۔

    تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں، [47] وہ اُن کی مائیں نہیں بن جاتی ہیں۔اُن کی مائیں تو وہی ہیں جنھوں نے اُن کو جنا [48] ہے۔ اِس طرح کے لوگ، البتہ بڑی ناگوار اور جھوٹی بات کہتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اِس کے باوجود) بڑا معاف کرنے والا اور مغفرت فرمانے والا [49] ہے۔

    (Al-Bayan: Javed Ahmed Ghamidi)

    _______________________________

    [44] سننے سے مراد یہاں محض سن لینا نہیں ہے، بلکہ قبول کر لینا ہے۔ ہماری زبان میں بھی یہ لفظ قبول کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اِس خاتون کا نام روایتوں میں خولہ بنت ثعلبہ آیا ہے۔ اِن کے شوہر اوس بن صامت انصاری قبیلۂ اوس کے سردار حضرت عبادہ بن صامت کے بھائی تھے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے مزاج میں کچھ تیزی تھی، پھر بڑھاپے میں کچھ چڑچڑے بھی ہو گئے تھے۔ اِس حالت میں بیوی سے ظہار کر بیٹھے۔ یہ اِسی واقعے کا ذکر ہے۔* سورہ کی ابتدا میں یہ واقعہ سورہ کے مخاطبین کو یہ بتانے کے لیے سنایا گیا ہے کہ دین کے معاملے میں اگر کوئی مشکل پیش آجائے تو بندۂ مومن کو اِس خاتون کی طرح اپنی مشکل اپنے پروردگار کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔ اپنی مشکلات کو منافقوں کی طرح دین پر نکتہ چینی اور اللہ و رسول کے خلاف محاذ آرائی کا بہانہ نہیں بنا لینا چاہیے۔ اِس میں الحاح و اصرار بھی ممنوع نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اِسے نہایت توجہ اور شفقت سے سنتا ہے۔

    [45] اصل میں ’تُجَادِلُکَ‘ کا لفظ آیا ہے۔ اِس سے پہلے عربیت کے معروف قاعدے کے مطابق ایک فعل ناقص حذف ہو گیا ہے۔ اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جس خاتون کا یہ واقعہ ہے ، اُنھوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ اور الحاح و اصرار کے ساتھ اپنا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ قرآن نے یہ لفظ ’مُجَادَلَۃ‘ اچھے اور بُرے، دونوں معنوں میں استعمال کیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

    ’’… برے معنی اِس کے کٹ حجتی کرنے اور جھگڑنے کے ہیں اور اچھے معنی اِس کے کسی سے اپنی بات محبت، اعتماد، حسن گزارش، تدلل اور اصرار کے ساتھ منوانے کی کوشش کرنے کے ہیں۔ اِس میں جھگڑنا تو بظاہر ہوتا ہے، لیکن یہ جھگڑنا محبت اور اعتماد کے ساتھ ہوتا ہے ، جس طرح چھوٹے اپنی کوئی بات اپنے کسی بڑے سے، اُس کی شفقت پر اعتماد کرکے منوانے کے لیے جھگڑتے ہیں۔ اِس مجادلۂ محبت کی بہترین مثال سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا وہ مجادلہ ہے جو اُنھوں نے قوم لوط کے باب میں اپنے رب سے کیا ہے اور جس کی اللہ تعالیٰ نے نہایت تعریف فرمائی ہے… یہاں اِن خاتون کے جس مجادلہ کی طرف اشارہ ہے ، اُس کی نوعیت بالکل یہی ہے۔‘‘

    (تدبرقرآن ۸/۲۴۷)

    [46] اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کو تباہی سے بچانے کے لیے بار بار فریاد کر رہی تھیں اور چاہتی تھیں کہ مسئلے کا کوئی حل نکل آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اُس وقت وحی الٰہی کی کوئی واضح رہنمائی اِس معاملے میں موجود نہیں تھی۔ چنانچہ آپ متردد تھے کہ اُنھیں کیا جواب دیں، یہاں تک کہ اُن کی فریاد اُس پروردگار نے سن لی جو سمیع و بصیر ہے، یہ تمام گفتگو جس کے سامنے ہو رہی تھی اور جو خاص توجہ اور مہربانی سے اُسے سن رہا تھا۔

    [47] ایلا کی طرح ظہار بھی عرب جاہلیت کی اصطلاح ہے۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ شوہر نے بیوی کے لیے ’أنت علیّ کظھر أمی‘ (تجھے ہاتھ لگایا تو گویا اپنی ماں کی پیٹھ کو ہاتھ لگایا) کے الفاظ زبان سے نکال دیے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں بیوی کو اِس طرح کی بات کہہ دینے سے ایسی طلاق پڑ جاتی تھی جس کے بعد بیوی لازماً شوہر سے الگ ہو جاتی تھی۔ اہل عرب سمجھتے تھے کہ یہ الفاظ کہہ کر شوہر نہ صرف یہ کہ بیوی سے اپنا رشتہ توڑ رہا ہے، بلکہ اُسے ماں کی طرح اپنے اوپر حرام قرار دے رہا ہے۔ لہٰذا اُن کے نزدیک طلاق کے بعد تو رجوع کی گنجایش ہو سکتی تھی، لیکن ظہار کے بعد اِس کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا۔

    [48] یعنی اگر کوئی شخص منہ پھوڑ کر بیوی کو ماں سے یا اُس کے کسی عضو کو ماں کے کسی عضو سے تشبیہ دے دیتا ہے تو اِس سے بیوی ماں نہیں ہو جاتی اور نہ اُس کو وہ حرمت حاصل ہو سکتی ہے جو ماں کو حاصل ہے۔ ماں کا ماں ہونا ایک امر واقعی ہے، اِس لیے کہ اُس نے آدمی کو جنا ہے۔ اُس کو جو حرمت حاصل ہوتی ہے ، وہ اِسی جننے کے تعلق سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک ابدی اور فطری حرمت ہے جو کسی عورت کو محض منہ سے ماں کہہ دینے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اِس طرح کی تشبیہ سے نہ کسی کا نکاح ٹوٹتا ہے اور نہ اُس کی بیوی ماں کی طرح حرام ہو جاتی ہے۔

    [49] مطلب یہ ہے کہ اِس طرح کا جملہ اگر کسی شخص کی زبان سے نکلا ہے تو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک نہایت بیہودہ اور جھوٹی بات ہے جس کا تصور بھی کسی آدمی کو نہیں کرنا چاہیے، کجا یہ کہ وہ اِسے زبان سے نکالے۔ اِس پر سخت محاسبہ ہو سکتا تھا، لیکن اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مغفرت فرمانے والا ہے۔ لہٰذا کوئی شخص اگر اشتعال میں آ کر اِس طرح کی خلاف حقیقت بات منہ سے نکال بیٹھے اور اُسے اپنی غلطی کا احساس ہو تو اللہ اُس سے درگذر فرمائیں گے۔

  • Umer

    Moderator September 1, 2021 at 6:31 am

    For further details on Zihar, please see:

    Discussion 29928

  • Rafi Sheikh

    Member September 1, 2021 at 10:34 am

    JazakAllah brother. Much thanks.

You must be logged in to reply.
Login | Register