Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Islam And State Can Govt Make Laws To Restrict Religious Conversion Before 18 Years?

  • Can Govt Make Laws To Restrict Religious Conversion Before 18 Years?

    Posted by Talha Mujahid on September 15, 2021 at 8:51 am

    Is it allowed to make ruling on it that anyone can’t convert his religion before 18 as Sindh Govt recently did?

    How will you justify this ruling?

    Ahsan replied 3 years, 1 month ago 4 Members · 3 Replies
  • 3 Replies
  • Can Govt Make Laws To Restrict Religious Conversion Before 18 Years?

    Ahsan updated 3 years, 1 month ago 4 Members · 3 Replies
  • Deleted User 7113

    Member September 18, 2021 at 4:21 pm

    Yes because age of consent is 18 years. Nobody can stop any one to change his or her religion at any age if s/he understands it though s/he may not announce it or accepted legally before the age of consent.

    Religion is a matter of heart but for legal purposes, it has to be declared. It’s quite possible that one believes in one religion but declares himself to follow other religion for legal purposes as many atheist write Muslims in their passport and ID card

  • Dawar Hussain

    Moderator September 19, 2021 at 3:21 am

    It’s taken from Hassan Ilyas Bhai’s Facebook page. It’s in the context of Sindh Assembly bill and in response to Maulana Taqi Usmani Sahib’s letter.

    Please see the link for the reference: https://www.facebook.com/735043729/posts/10158241305633730/?d=n

    “مذہب کی جبری تبدیلی پر سندھ اسمبلی کا قانون”

    سندھ اسمبلی کے قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ جبرا مذہب کی تبدیلی قابل تعزیر جرم ہے۔ قانون کی رو سے اگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ مذہب تبدیل کر رہا تو اسے 18 سال کی عمر کا ہونا چاہیے۔اور نئے مذہب کو قبول کرنے کے 21 دن کے بعد قانون اس کا یہ دعوی قبول کرے گا.

    قانون کے نزدیک 18 سال کی عمر شعور اور رشد کی عمر ہے۔اور 21 دن کی مہلت اس بات کو متحقق کرے گی کہ فیصلہ کسی جبر کا نتیجہ نھیں ہے۔یہ قانون سندھ اسمبلی کے ایک ہندو رکن نے تجویز کیا تھا جس کا پس منظر اندرون سندھ میں ہندوں کی جبرا مذہب کی تبدیلی اور آزادانہ مذہب اختیار کرنے کی حق تلفی تھی۔

    اس قانون پر عہد حاضر کے ایک بڑے عالم کی تنقید ہمارے سامنے ہے۔

    انھوں نے قانون کی اصل کو تو تسلیم کیا ہے کہ جبرا مذہب کی تبدیلی خلاف اسلام ہے، البتہ انھوں نے تین نکات میں اس قانون سے اپنا اختلاف ظاہر کیا ہے۔

    ان کے اختلافی نکات پر طالبعلمانہ تبصرہ درج ذیل ہے۔

    1_مفتی تقی عثمانی صاحب 18 سال کی عمر کی تعیین کو درست نھیں سمھجتے۔اور کہتے ہیں کہ اسلامی شریعت کی رو سے بچے 15 سال کی عمر میں بھی بالغ ہوسکتا ہے۔

    اس پر عرض یہ ہے کہ اسلامی شریعت میں ایسی کوئی صراحت موجود نھیں ہے کہ بلوغ کی عمر کیا ہے ۔البتہ فقھا کے مختلف رجحانات اس حوالے سے موجود ہیں۔اور فقھا جسمانی بلوغ کے حوالے سے مختلف آرا رکھتے ہیں۔یہ انسانی تحقیق کا موضوع۔جو ماحول کی تبدیلی سے مختلف بھی ہو سکتا ہے، اس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اگرچہ قانون میں جسمانی بلوغت زیر بحث نہیں اس کی شعوری بلوغت زیر بحث ہے کہ اس شخص میں یہ صلاحیت پیدا ہوگئی ہے کہ اپنی رائے سے یہ فیصلہ کر لے ۔

    مفتی صاحب “رشد” کی اس عمر سے بھی اختلاف کا حق رکھتے ہیں لیکن اس کا انحصار حالات پر ہوگا نہ کہ شریعت اسلامی کا کوئی قطعی فیصلہ ہے جو پہلے سے طے کیا جا چکا ہے۔۔۔

    2_دوسرا مفتی صاحب نے فرمایا ہے کہ 21 دن کی مہلت بھی غلط ہے جس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ نو مسلم کو ڈرا دھمکا کر مرتد کر دیا جائے۔

    اس پر عرض یہ ہے کہ یہ مہلت اس بات کی تحقیق کے لیے کہ جبری تبدیلی نہیں کی گئی ۔اسی حوالے سے قانون میں صراحت ہے کہ اسے کسی خارجی دباو سے الگ رکھنے کا اہتمام کیا جائے گا۔لہذا عند اللہ اس کا اسلام تسلیم ہونے یا نہ ہونا زیر بحث نہیں بلکہ قانون اس تحقیق کے لیے یہ مہلت حاصل کر رہا ہے کہ کہیں اس کی حق تلفی تو نھیں ہوئی۔

    قانون میں کہیں نھیں کہا گیا کہ وہ بھی ان اکیس دنوں میں خود کو مسلمان تسلیم نہ کرے۔

    3_تیسری بات مفتی صاحب نے کہی ہے کہ والدین کے قبول اسلام کی صورت میں بھی کیا انتظار کیا جائے گا کہ ان کے بچے 18 سال کے ہوں تب ہی اپنے اسلام کو ظاھر کریں۔

    اس حوالے سے قانون میں کوئی صراحت نھیں۔یہ اچھی تجویز ہے ۔قانون میں یہ بات لکھنی چاہیے کہ والدین کے مذہب کی تبدیلی کی صورت میں بچوں کو بھی انھی کے حکم میں سمجھا جائے گا۔لھذا والدین کا قبول اسلام آپ سے آپ بچوں کو مسلمان کر دے گا ۔ البتہ شعور کی عمر کے بعد ان کا اپنا فیصلہ قابل عمل ہونا چاہیے۔

    میرے خیال میں اسمبلی کا یہ حق ہے کہ وہ حق تلفی کے خلاف قانون سازی کرے۔تاھم یہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون ہے ۔اس کے میکینزم سے اختلاف کی گنجائش ہے۔لیکن اس اختلاف میں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ ہمارے ملک میں اقلیتیں اس حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔مسلمانوں کی اکثریت والے ملک میں اس عدم تحفظ کا اظھار مسلمانوں کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے ۔ ایسے میں زعمائے قوم کی جانب سے اس قانون کو “شرم ناک” قرار دینا اور اس کے خلاف تحریک چلانا ان کے تحفظات کو مزید تقویت دیتا ہے۔

    محمد حسن۔

    (2016)

  • Ahsan

    Moderator October 3, 2021 at 3:54 am

    In recent Q&A Session with Ghamidi Sahab on Questions selected from ASK GHAMIDI Platform:

    For answer to your question, please refer to the video below from 1:06:03 to 1:09:09

    https://youtu.be/X1X2sxA_VqQ?t=3982

You must be logged in to reply.
Login | Register