آیت میں پہلا لفظ ’اَمْر‘ہے ۔عربی زبان میں یہ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ،لیکن آیۂ زیربحث میں اِس کا موقع و محل دلیل ہے کہ یہ نظام کے مفہوم میں ہے ۔یہ معنی اِس لفظ میں حکم ہی کے معنی میں وسعت سے پیدا ہوئے ہیں ۔حکم جب بہت سے لوگوں سے متعلق ہوتا ہے تو اپنے لیے حدود مقرر کرتا اور قواعد و ضوابط بناتا ہے۔ اُس وقت اِس کا اطلاق سیاسی اقتدار کے احکام اور جماعتی نظم، دونوں پر ہوتا ہے۔ لفظ ’نظام‘ ہماری زبان میں اِسی مفہوم کی تعبیر کے لیے بولا جاتا ہے ۔
پھر اِس مقام پر چونکہ قرآن مجید نے اِسے ضمیر غائب کی طرف اضافت کے سوا کسی دوسری صفت سے مخصوص نہیں کیا، اِس لیے نظام کا ہر پہلو اِس میں شامل سمجھا جائے گا ۔بلدیاتی مسائل، قومی و صوبائی امور ، سیاسی و معاشرتی احکام، قانون سازی کے ضوابط ،اختیارات کا سلب و تفویض، امرا کا عزل و نصب، اجتماعی زندگی کے لیے دین کی تعبیر ،غرض نظم اجتماعی کے تمام معاملات اِس آیت میں بیان کیے گئے قاعدے سے متعلق ہوں گے ۔اُس کا کوئی شعبہ اِس کے دائرے سے باہر اور کوئی حصہ اِس کے اثرات سے خالی نہ ہو گا ۔
(Excerpt from Meezan: Javed Ahmed Ghamidi)
You can also refer to the video in the following link from 31:51 to 34:17:
Discussion 32046 • Reply 32047