Although he was not a prophet, but he was a pious king and a firm believer in God.
قَالَ ہٰذَا رَحۡمَۃٌ مِّنۡ رَّبِّیۡ ۚ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ رَبِّیۡ جَعَلَہٗ دَکَّآءَ ۚ وَ کَانَ وَعۡدُ رَبِّیۡ حَقًّا ﴿ؕ۹۸﴾
ذوالقرنین نے کہا: یہ میرے پروردگار کی رحمت ہے۔ پھر جب میرے پروردگار کے وعدے کا ظہور ہو گا تو وہ اِس کو ڈھا کر برابر کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ برحق [103] ہے۔
(Quran 18:98)
(Excerpt from Al-Bayan: Javed Ahmed Ghamidi)
__________________
[103] یہ قرآن نے نہایت خوبی کے ساتھ قصۂ ذوالقرنین کو سورہ کے مضمون سے متعلق کر دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُس نے تنگ ظرفوں کی طرح یہ نہیں کہا کہ یہ میں وہ کارنامہ کیے جا رہا ہوں جس پر کبھی زوال نہ آئے گا، بلکہ نہایت عاجزی کے ساتھ اُسے اپنے پروردگار کی رحمت و عنایت اور اُس کے فضل و کرم کا کرشمہ قرار دیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’پیچھے دو شخصوں کی تمثیل کے ذیل میں مغرورین دنیا کی یہ ذہنیت آپ پڑھ چکے ہیں کہ جب وہ اپنی کامیابی کے ہرے بھرے باغ میں داخل ہوتے ہیں تو غرور کے نشے میں کہتے ہیں کہ ’مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ ھَذِہٖٓ اَبَدًا‘، ’’میں گمان بھی نہیں کرتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہو سکے گا۔‘‘ اِس کے بعد ایک عبد شاکر کی ذہنیت نمایاں فرمائی ہے کہ وہ اپنے بڑے سے بڑے کارنامہ پر بھی اپنے رب کا شکرگزار ہوتا ہے اور اللہ کے شدنی وعدۂ آخرت کو یاد رکھتا ہے۔‘‘
(تدبرقرآن۴/ ۶۲۲)