Please read translation and footnotes from Ghamidi Sb’s Al-Bayan. I’ve copied Ayah 15 – 18 here.
Az-Zukhruf, Ayah 15 – 18
Translation:
(یہ [19] سب جانتے اور مانتے ہوئے بھی) اِنھوں نے خدا کے بندوں میں سے بعض کو اُس کا جز بنا ڈالا [20] ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلا ہوا ناشکرا ہے۔
کیا اپنی مخلوقات میں سے اُس نے اپنے لیے بیٹیاں پسند کیں اور تم کو بیٹے دے کر نوازا ہے؟
اور اِن کا اپنا حال یہ ہے کہ جب اِن میں سے کسی کو اُس چیز کی خوش خبری دی جاتی ہے، جس کی تہمت خداے رحمٰن پر رکھتا ہے تو اُس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ گھٹا گھٹا رہنے لگتا ہے۔
اور (سوچتا ہے کہ) کیا وہ پیدا ہوئی ہے جو زیوروں میں پلتی اور مخاصمت کے موقعوں [21] پر گویا بے زبان ہوتی [22] ہے۔
Footnotes (حواشي)
19 یہ اب اُن کے تضاد فکر کو واضح کرنے کے لیے تضمین کی آیتوں کے بعد کلام کو اُسی مضمون سے مربوط کر دیا ہے جو اوپر آیت ۹ میں بیان ہوا ہے۔
20 یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور اولاد اپنے والدین کا جز ہی ہوتی ہے۔ یہی غلطی سیدنا مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں نے اُن کو خدا کا بیٹا اور وحدت الوجود کے ماننے والوں نے پوری کائنات کو خدا کا جسدی ظہور قرار دے کر کی ہے۔
21 یعنی مبارزت اور مفاخرت کے موقعوں پر۔ اہل عرب کی زندگی میں یہ دونوں ہی چیزیں بڑی غیر معمولی اہمیت کی حامل تھیں۔
22 عورت پر یہ تبصرہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے، بلکہ اُن اہل عرب کی طرف سے ہے جن کے احمقانہ عقائد یہاں زیر بحث ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد بھی تجویز کرتے ہو تو ایسی جس کو اپنے لیے ننگ و عار اور زندگی کے معرکوں میں بالکل بے کار سمجھتے ہو۔ خود غور کرو کہ اِس سے بڑھ کر بھی کوئی حماقت ہو سکتی ہے؟