-
Does Islam Allow Sex With Slaves?
لونڈیوں سے تمتع کے معاملہ میں بہت سی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن میں ہیں ، لہٰذا حسب ذیل مسائل کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے: ( ١ ) جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں ، ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے ۔ بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالہ کر دی جائیں گی ۔ حکومت کو اختیار ہے کہ چاہے ان کو رہا کر دے ، چاہے ان سے فدیہ لے ، چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کرے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں ، اور چاہے تو انہیں سپاہیوں میں تقسیم کر دے ۔ ایک سپاہی صرف اس عورت ہی سے تمتع کرنے کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو ۔ ( ۲ ) جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے ، اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آجائیں اور یہ اطمینان نہ ہولے کہ وہ حاملہ نہیں ہے ۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے ۔ اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے ۔ ( ۳ ) جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں ۔ ان کا مذہب خواہ کوئی ہو ، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی تو جن کے حصہ میں وہ آئیں ، وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں ۔ ( ٤ ) جو عورت جس شخص کے حصہ میں دی گئی ہو صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کر سکتا ہے ۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے ۔ اس عورت سے جو اولاد ہوگی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی ملک میں وہ عورت ہے ۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں ۔ صاحب اولاد ہوجانے کے بعد وہ عورت فروخت نہ کی جا سکے گی اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی ۔ ( ۵ ) جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو ، اسے اگر اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دیدے تو پھر مالک کو اس سے دوسری تمام خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے لیکن شہوانی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا ۔ ( ٦ ) جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے ، اس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی ۔ لیکن اس معاملہ میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مالدار لوگ بے شمار لونڈیاں خریدخرید کر جمع کرلیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں ۔ بلکہ درحقیقت اس معاملہ میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے ۔ ( ۷ ) ملکیت کے تمام دوسرے حقوق کی طرح وہ مالکانہ حقوق بھی قابل انتقال ہیں جو کسی شخص کو ازروئے قانون کسی اسیر جنگ پر حکومت نے عطا کیے ہوں ۔ ( ۸ ) حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے ۔ لہٰذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا ، وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے ۔ ( ۹ ) اسیران جنگ میں سے کسی عورت کو کسی شخص کی ملکیت میں دے دینے کے بعد پھر حکومت اسے واپس لینے کے مجاز نہیں رہتی ۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی عورت کا ولی اس کو کسی کے نکاح میں دے چکنے کے بعد پھر واپس لینے کا حقدار نہیں رہتا ۔(۱۰) اگر کوئی فوجی کمانڈر محض وقتی اور عارضی طور پر اپنے سپاہیوں کو قیدی عورتوں سے شہوانی پیاس بجھالینے کی اجازت دے دے اور محض کچھ وقت کے لیے انہیں فوج میں تقسیم کرے تو یہ اسلامی قانون کی رو سے قطعاً ایک ناجائز فعل ہے ۔ اس میں اور زنا میں کوئی فرق نہیں ہے ، اور زنا اسلامی قانون میں جرم ہے ۔ ( تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو ہماری کتاب”تفہیمات“ حصہ دوم ، اور ”رسائل و مسائل“ حصہ اول )
This explanation by Maulana Maudoodi seems like that Islam allows sex slaves if they’re captured in war. Does Ghamidi sahab agree with this explanation ?
Sponsor Ask Ghamidi