This verse is directly addressing Prophet Mohammad saw. It is not related with the meaning you are taking. Molana Ahsan has translated this verse as follows
اور اپنی سعی کو زیادہ خیال کر کے منقطع نہ کر
In his tafsir explains it as follows
میرے نزدیک آیت میں یہ اسی معنی میں آیا ہے۔ مطلب، جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا، یہ ہو گا کہ انذار کا یہ فرض بغیر کسی وقفہ اور انقطاع کے برابر جاری رکھو، کبھی یہ گمان کر کے چھوڑ نہ بیٹھنا کہ کافی انذار ہوچکا، اب ضرورت نہیں رہی۔ یہ ہدایت اس لیے فرمائی گئی کہ رسول جس فرض انذار پر مامور ہوتا ہے اس کے متعلق سنت الٰہی جیسا کہ جگہ جگہ ہم ذکر کر چکے ہیں، یہ ہے کہ اگر قوم اس کے انذار کی پروا نہیں کرتی تو ایک خاص مدت تک مہلت دینے کے بعد اللہ تعالیٰ اس کو لازماً ہلاک کر دیتا ہے۔ یہ مہلت اتمام حجت کے لیے ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کسی قوم کو اس کے لیے کتنی مہلت ملنی چاہیے۔ رسول کا فرض یہ ہے کہ وہ اس وقت تک اپنے کام میں لگا رہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے پاس یہ ہدایت نہ آ جائے کہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا، اب وہ قوم کو اس کی تقدیر کے حوالہ کر کے اس علاقے سے ہجرت کر جائے۔ اگر رسول بطور خود یہ گمان کر کے قوم کو چھوڑ کر ہجرت کر جائے کہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا تو اندیشہ ہے کہ حالات کا اندازہ کرنے میں اس سے اسی طرح کی غلطی صادر ہو جائے جس طرح کی غلطی حضرت یونس علیہ السلام سے صادر ہوئی۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو تنبیہ فرمائی اور ایک سخت امتحان سے گزارنے کے بعد ان کو پھر قوم کے پاس انذار کے لیے واپس بھیجا اور اس دوبارہ انذار سے اللہ تعالیٰ نے ان کی پوری قوم کو ایمان کی توفیق بخشی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کی عجلت سے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی مرحلہ میں یہ آگاہی دے دی کہ تم جس فرض پر مامور کیے جا رہے ہو اس میں برابر لگے رہنا، کبھی ازخود یہ سمجھ کر چھوڑ نہ بیٹھنا کہ اب وہ فرض کافی حد تک ادا ہو چکا۔