Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Surah Hajj Verse 52 – Differences In The Translation Of Word Tamanna (تَمَنّٰۤی)

Tagged: ,

  • Surah Hajj Verse 52 – Differences In The Translation Of Word Tamanna (تَمَنّٰۤی)

    Posted by Muhammad Talha on May 8, 2022 at 4:59 am

    I have attached two different translations of the same verse. One is from Quran.com and the other is from Ghamidi Sb’s tafsir, I have confusion in understanding the translation of Tamanna, Dr Mustafa Khattab has translated it as ‘recitation’ while Ghamidi Sb has translated as ‘Desire’. Doesn’t it change the meaning entirely?

    Umer replied 2 years, 7 months ago 2 Members · 2 Replies
  • 2 Replies
  • Surah Hajj Verse 52 – Differences In The Translation Of Word Tamanna (تَمَنّٰۤی)

    Umer updated 2 years, 7 months ago 2 Members · 2 Replies
  • Muhammad Talha

    Member May 8, 2022 at 5:01 am

    وَمَاۤ أَرۡسَلۡنَا مِن قَبۡلِكَ مِن رَّسُولࣲ وَلَا نَبِیٍّ إِلَّاۤ إِذَا تَمَنَّىٰۤ أَلۡقَى ٱلشَّیۡطَـٰنُ فِیۤ أُمۡنِیَّتِهِۦ فَیَنسَخُ ٱللَّهُ مَا یُلۡقِی ٱلشَّیۡطَـٰنُ ثُمَّ یُحۡكِمُ ٱللَّهُ ءَایَـٰتِهِۦۗ وَٱللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمࣱ﴿ ٥٢ ﴾

    • Dr. Mustafa Khattab:

    Whenever We sent a messenger or a prophet before you ˹O Prophet˺ and he recited ˹Our revelations˺, Satan would influence ˹people’s understanding of˺ his recitation. But ˹eventually˺ Allah would eliminate Satan’s influence. Then Allah would ˹firmly˺ establish His revelations. And Allah is All-Knowing, All-Wise.

    Al-Hajj, Ayah 52

    O Prophet!] Whichever messenger or prophet We sent before you [92] was faced with the situation that whenever he desired something, [93] Satan caused disruption in his desire.[94] Then God obliterates this disruption of Satan; then God strengthens His revelations and God is knowing and wise.

    Translation from Ghamid Sb’s tafsir.

  • Umer

    Moderator May 9, 2022 at 5:48 pm

    Following is a detailed commentary of Amin Ahsan Islahi on epistemology of words تَمَنّٰۤی and اُمۡنِیَّتِہٖ :

    تمنّٰی‘ کا لغوی مفہوم: ’تمنٰی‘ کا اصل لغوی مفہوم، صاحب اقرب الموارد کی تصریح کے مطابق یہ ہے۔

    یطلق عند اھل العربیۃ علی طلب حصول الشئ علی سبیل المحبۃ وعلی الکلام الدال علی ھذا الطلب (عربی زبان کے ماہرین کے نزدیک یہ لفظ کسی شے کے بطریق محبت حصول کی طلب کے لیے بولا جاتا ہے اور اسی طرح اس کلام پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے جو اس طلب پر دال ہو)

    میں نے اس قول کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ میرے نزدیک کلام عرب کی روشنی میں، اس لفظ کا صحیح مفہوم یہی ہے۔ قرآن میں اس کے مختلف صیغے سات آٹھ مقامات میں استعمال ہوئے ہیں۔ اس کے بعد اسی مادے سے ’امنیۃ‘ کا لفظ بھی جمع اور واحد کی مختلف صورتوں میں، سات آٹھ جگہ آیا ہے۔ ہر جگہ، ہر شکل میں، حوصلہ کرنا، یا کسی مقصد کے لیے اپیل یا اتمالت کرنا۔ اسی طرح ’امنیۃ‘ کے معنی خواہش، ارمان، تمنا، حوصلہ اور اپیل کے ہوں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس لفظ کے اندر بعض لوگوں نے قراء ت کرنے کے معنی کہاں سے گھسا دیے ہیں۔ مجھے اس معنی میں یہ لفظ، کلام عرب میں کہیں نہیں ملا حالانکہ یہ عربی زبان کے کثیر الاستعمال الفاظ میں سے ہے۔ بعض مفسرین نے اس مفہوم کی تائید میں ایک شعر نقل کیا ہے لیکن اول تو ایک کثیر الاستعمال لفظ کو، اس کے معروف مفہوم سے ہٹانے کے لیے، ایک غیر معروف شعر کی سند کی وقعت کیا ہے۔ پھر وہ شعر بھی ہمارے نزدیک منحول ہے اور ہم اس کا منحول ہونا ثابت کر سکتے ہیں لیکن ایک غیر مفید بحث کو طول دینے سے کیا حاصل؟ اس بات کی بھی ہمارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے کہ صاحب لسان نے لفظ کے اس مفہوم کا بھی حوالہ دیا ہے۔ صاحب لسان کی ساری خوبیوں کے اعتراف کے باوجود، ان کی اس خامی کی طرف مقدمۂ تفسیر میں ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ بسااوقات وہ کسی لفظ کے تحت اہل تاویل کے بے سند اقوال بھی نقل کر دیتے ہیں اور چونکہ اس لغت کا بڑا پایہ ہے اس سے جو لوگ لغت کے نقادوں میں سے نہیں ہیں وہ اس طرح کے اقوال کو لے اڑتے ہیں حالانکہ اس اقوال کی، جب تک زبان کے استعمالات سے تائید نہ ہو، کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بہرحال ہمارے نزدیک اس لفظ کے اندر قراء ت یا تلاوت کے معنی کے لیے کوئی ادنیٰ گنجائش بھی نہیں ہے۔ اب آیت کے مفہوم اور اس کے اجزاء پر غور کیجیے۔ آیت ۵۲ کا صحیح مفہوم: اوپر والی آیت میں معاندین کی جس سعی فی المعاجزۃ کا ذکر ہے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو تمہی کو پیش آئی ہو۔ تم سے پہلے جتنے رسول اور نبی بھی آئے سب کو اسی طرح کے حالات سے سابقہ پیش آیا۔ جب بھی کسی نبی نے لوگوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے کوئی قدم اٹھایا، کوئی حوصلہ کیا، کوئی دعوت دی اور خلق کو سکھانے، سدھارنے، بلانے اور پرچانے کی کوشش کی تو اشرار و مفسدین نے اسی طرح اس کے حوصلے کی راہ میں اڑنگے ڈالے اور اس کی آواز کو دبانے اور اس کی تعلیم و دعوت کو شکست دینے کی کوشش کی۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی دعوت و اصلاح کے ارادے سے اٹھتے تو ابولہب و ابوجہل وغیرہ آپؐ کی تردید کے لیے سایہ کی طرح ساتھ ساتھ پھرتے۔ یہاں ہدایت و اصلاح کی راہ میں نبی کے اقدام کو تمنّی اور اس کی سعی و جہد کو ’امنیۃ‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ’امنیۃ‘ کے معنی آرزو، حوصلہ اور ارمان کے ہیں۔ ان الفاظ کے استعمال سے مقصود اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کی تمنا اور آرزو تو شب و روز یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اللہ کی ہدایت اور اس کی باتیں (آیات) اتارنے کی کوئی راہ کھلے اور وہ یہ راہ کھولنے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتا رہتا ہے لیکن شیاطین ہر وقت یہ راہ مارنے کے لیے گھات میں رہتے ہیں اور جہاں ان کو نبی کی کوئی بات بنتی نظر آئی فوراً اس کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے شروع کر دیتے ہیں۔ یہ امر یاد رکھیے کہ شیاطین اس وقت تو میٹھی نیند سوتے رہتے ہین جب تک وہ دیکھتے ہیں کہ کسی طرف سے کلمۂ حق کی صدا نہیں آ رہی ہے لیکن جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی دعوت حق بلند ہوئی تو ان کو اپنا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگتا ہے اور پھر وہ اس کی مخالفت کے لیے اپنے تمام حربوں سے مسلح ہو کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ نبی اور رسول کے فرق پر ہم آل عمران ۴۹ کے تحت وضاحت کر چکے ہیں۔ یہاں ان دونوں لفظوں کے ذکر سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اس آزمائش سے کوئی نبی یا رسول بھی نہیں بچا ہے۔ یہ آزمائش انبیاء و رسل کے لیے اللہ کی ایک سنت ہے جو سب کو پیش آ چکی ہے۔ لفظ ’شیطان‘ یہاں بطور اسم جنس ہے اور اس سے مراد شیاطین جن و انس دونوں ہیں۔ یعنی دونوں گٹھ جوڑ کر کے نبی کو شکست دینے کے لیے ایک متحدہ محاذ بنا لیتے ہیں۔ شیاطین کی فتنہ انگیزیاں: ’اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہٖ‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ نبی کے کام و اقدام اور اس کے ارادوں اور منصوبوں میں طرح طرح سے رخنہ اندازیاں کرتے اور قسم قسم کے اعتراضوں، طعنوں، شگوفہ بازیوں سے اس کے کلام و پیغام کے اثر کو مٹانے کے درپے ہوتے ہیں۔ ’فَیَنْسَخُ اللّٰہُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْکِمَُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ‘۔ ’نسخ‘ کے معنی، جیسا کہ آیت نسخ کے تحت وضاحت ہو چکی ہے، مٹانے کے ہیں اور ’اِحکام‘ کے معنی پابرجا اور مستحکم کرنے کے۔ مطلب یہ ہے کہ انبیاء و رسل کو یہ آزمائش اللہ تعالیٰ کی سنت کے تحت پیش آتی ہے اور اس کا فائدہ، جیسا کہ آگے وضاحت آ رہی ہے، دعوت حق کو پہنچتا ہے۔ حق و باطل کے اس تصادم کا نتیجہ بالآخر یہ ہو تا ہے کہ اللہ شیاطین کے اٹھائے ہوئے فتنوں کو تو جھاگ کی طرح بٹھا دیتا ہے اور اپنی اور اپنے رسول کی باتوں کو دلوں میں رسوخ و استحکام بخشتا ہے۔ ’وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘۔ یہ تسلی کے مضمون کو اللہ تعالیٰ کی صفات کے حوالہ سے مزید مؤکد ومدلل کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق و باطل میں یہ کشمکش کراتا ہے اور اپنے نبیوں کی دعوت کے مقابلہ میں شیاطین کو بھی زور آزمائی و فتنہ انگیزی کا موقع جو دیتا ہے تو یہ سب کچھ اس کے علم و حکمت پر مبنی ہے۔ اس وجہ سے نبی کو اللہ کے علم اور اس کی حکمت پر بھروسہ رکھنا چاہیے کہ جو کچھ پیش آئے گا وہ اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت پر مبنی ہو گا اور اس کا نتیجہ اس کی دعوت کے حق میں بہتر ہی نکلے گا۔ بعینہٖ یہی مضمون بتغیر الفاظ قرآن کے دوسرے مقامات میں بھی بیان ہوا ہے۔ بعض نظائر ملاحظہ ہوں سورۂ انعام میں ارشاد ہوتا ہے:

    وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًاط وَلَوْشَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْھُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَo وَلِتَصْغٰٓی اِلَیْہِ اَفْءِدَۃُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ وَلِیَرْضَوْہُ وَلِیَقْتَرِفُوْا مَا ھُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ (الانعام: ۱۱۳۔۱۱۴) ’’اور اسی طرح ہم نے انسانوں اور جنوں کے شیاطین کو ہر نبی کا دشمن بنایا۔ وہ ایک دوسرے کو ملمع کی ہوئی باتیں خلق کی فریب دہی کے لیے القا کرتے ہیں اور اگر تیرا رب چاہتا تو وہ یہ نہ کر پاتے تو ان کو اور ان کی اس ساری فریب کاری کو نظر انداز کرو۔ اللہ نے اس کا موقع اس لیے دے رکھا ہے کہ اس سے اہل ایمان کا ایمان محکم ہو اور تاکہ اس فتنہ کی طرف ان لوگوں کے دل جھکیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور تاکہ وہ اس کو پسند کریں اور تاکہ جو کمائی یہ کرنی چاہتے ہیں کر لیں۔‘‘

    ان آیات سے سورۂ حج کی زیربحث آیت کی پوری وضاحت ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر ’یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا‘ کے الفاظ نگاہ میں رہیں۔ یہ بعینہٖ وہی بات ہے جو آیت زیربحث میں ’اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہٖ‘ کے الفاظ سے تعبیر فرمائی گئی ہے۔ اسی طرح سورۂ فرقان میں ہے:

    وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ ط وَکَفٰی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَّنَصِیْرًاo وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنَُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃًج کَذٰلِکَ ج لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًاo وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِءْنٰکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا (فرقان: ۳۱۔۳۳) ’’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے مجرموں میں سے دشمن بنائے اور اطمینان رکھو، تمھارا رب رہنمائی اور مدد کے لیے کافی ہے۔ اور یہ کافر اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اس شخص پر یہ قرآن آخر بیک دفعہ کیوں نہیں نازل کر دیا گیا! ہم نے ایسا اس لیے کیا کہ اس بارگراں کے لیے تمھارے دل کو اس کے ذریعہ سے اچھی طرح مضبوط کر دیں اور ہم نے اس کو اہتمام کے ساتھ بالتدریج اتارا۔ اور یہ جو شگوفہ بھی چھوڑیں گے تو ہم اس کے جواب میں حق کو واضح اور اس کی بہترین توجیہ کریں گے۔‘‘

    اس آیت میں اس القائے شیطانی کی ایک مثال بھی پیش کر دی گئی ہے کہ اللہ کا رسول جب لوگوں کے سامنے اللہ کا کلام پیش کرتا ہے تو یہ معاندین، رسول کو مطعون کرنے کے لیے یہ شگوفہ چھوڑتے ہیں کہ اگر یہ اللہ کے رسول ہیں تو یہ پورا قرآن بیک دفعہ کیوں نہیں پیش کر دیتے! آخر اللہ کے لیے یہ کیا مشکل ہے! مطلب یہ ہے کہ جب یہ ایسا نہیں کر رہے ہیں تو اس کے معنی (نعوذ باللہ) یہ ہیں کہ یہ خود اس کلام کو گھڑتے ہیں اور جتنا گھڑ پاتے ہیں اتنا سنا دیتے اور دھونس جمانے کے لیے جھوٹ موٹ اس کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ القائے شیطان کی بے بنیاد روایت: اس آیت کی توضیح میں ہم نے س قدر تفصیل سے صرف اس لیے کام لیا ہے کہ کسی کے ذہن میں کوئی خلجان باقی نہ رہ جائے۔ اس توضیح کے بعد اس فضول سی روایت کی تردید کی ضرورت باقی نہیں رہی ہمارے مفسرین نے، اللہ ان کو معاف کرے، اپنی کتابوں میں اس آیت کے شان نزول کی حیثیت سے درج کر دی ہے۔ اول تو یہ آیت، جیسا کہ آپ نے دیکھا، کسی شان نزول کی محتاج نہیں ہے بلکہ اپنے مفہوم و مدعا میں بالکل واضح اور اپنے سابق و لاحق سے بالکل مربوط ہے۔ پھر ستم یہ ہے کہ جو روایت یہ حضرات نقل کرتے ہیں نہ اس کا روایت کے اعتبار سے کوئی وزن ہے نہ درایت کے پہلو سے بلکہ وہ محض زنادقہ کا ایک القائے شیطانی ہے جو انھوں نے حضرات انبیاء علیہم السلام کو مجروح کرنے کے لیے گھڑا اور حضرات مفسرین اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے اس کو اپنی کتابوں میں نقل کرتے آ رہے ہیں۔

You must be logged in to reply.
Login | Register