Forums › Forums › Islamic Sharia › Religion As A Profession And As A Source Of Income
-
Religion As A Profession And As A Source Of Income
Posted by Ali Raza on September 28, 2022 at 7:31 pmکیا اسلام میں مذہبی پیشہ واری کی کوئی گنجائش ہے ؟
عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ گلی محلوں میں تنخواہوں پر امام مسجد مقرر کیے جاتے ہیں کیا یہ درست عمل ہے؟
مذہبی محافلِ پر ثناء خواں,عالم حضرات دین بیان کرنے کا معاوضہ وصول کرتے ہیں کیا یہ درست عمل ہے؟
Dr. Irfan Shahzad replied 2 years, 8 months ago 2 Members · 7 Replies -
7 Replies
-
Religion As A Profession And As A Source Of Income
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar September 29, 2022 at 2:15 amدینی خدمات کی ضرورت ایک سماج کو ایسی ہی ہے جیسے ڈاکٹر یا وکیل یا دیگر اہل ہنر اور اہل علم کی خدمات۔ ان سب کو ان کی خدمات کا معاوضہ ادا کیا جاتا ہے ۔مذہبی خدمت اس سے مستثنا نہیں ۔
-
Ali Raza
Member September 29, 2022 at 6:15 pm:چند جزویات
آپکا جواب فی زمانہ چل رہے رواج کی طرح
اشارہ کر رہا ہے
آپکے بقول دینی خدمات باقی شعبہ جات کی طرح ہی ہیں باقی دنیاوی شعبہ جات شکم کی آگ بجھانے کے لئے اخیتار کیے جاتے ہیں اگر مذہب بھی اسی راستے پر گامزن ہوگیا تو معاشرہ کس طرح کا ہوگا اسے ہم اپنے ہاں باخوبی دیکھ سکتے ہیں ۔
آپ مذہبی پیشہ واری کی جو اجازت دے رہے ہیں اس نتیجہ میں پیدا ہونے والی
ٹھیکیداریاں جنہیں ہمارے معاشرے میں عام دیکھا جا سکتا ہے انکی اسلام میں کیا حثیت ہے؟
-
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar September 29, 2022 at 11:27 pmکوئی بھی شخص جب سماج کی کسی ضرورت کے لیے مطلوبہ قابلیت پیدا کرتا اور ان سرگرمیوں کے لیے وقت وقف کرتا ہے تو اس کے معاش کا مسئلہ حل کرنا سماج ہی کا کام ہوتا ہے جو اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ورنہ اس کے معاش کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
نبیوں کے لیے بھی معاش کا انتظآم کیا گیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ مال غنیت کے پانچویں حصے اور مال فے سے اپنی ضروریات پوری کیا کرتے تھے، اس کا حکم سورہ انفال اور سورہ حشر میں دیا گیا کہ ان سے آپ اپنے اخراجات پورے کریں۔
بنی اسرائیل میں بنی لاوی کے ذمے تھا کہ وہ دینی امور سرانجام دیں۔ اس کے علاوہ وہ کوئی کام نہیں کرتے تھے تو خدا نے بنی اسرائیل کی یہ ذمہ داری بتائی کہ وہ اپنے نذرانوں اور فصلوں کا ایک حصہ بنی لاوی کو ادا کریں گے جس سے وہ اپنی ضرورت پوری کریں۔
رہی یہ بات کہ کوئی اپنے پروفیشن سے غلط فائدہ اٹھاتا ہے تو وہ ہرشعبے میں ہوتا ہے۔ اس کو درست کرنے کے لیے اخلاقی اور قانونی مدد لی جائے گی۔
-
Ali Raza
Member September 30, 2022 at 12:27 amحضور معذرت آپکا جواب مزید سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
جہاں تک بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تو آپ نے اور صحابہ نے تجارت بھی کی اور دینی مسائل بیان کرنے کا کام فی سبیل اللہ کیا
اب اصل مدعا پر آتے ہیں آپ نے دلیل کے طور پر بنی اسرائیل (اسلام کے آنے کے بعد میں نظم اسلام کے مطابق ہوتا ہے) کے معمولات کی مثال دی ہے
اگر اس مثال کو حجت مان کر ایک معاشرہ تشکیل دیا جائے تو اس ڈویژن آف لیبر کے تحت دین صرف چند افراد کا مشغلہ (اجارہ داری) بن جائے گا جوکہ ہر طرح سے باقی لوگوں کے لیے کسی طور سود مند نہیں
ہوسکتا۔
اگر قیامت والے دن دینی امور سے متعلق سوال ہوا تو کیا ہم ان پروفیشنلز کو آگے کر سکتے ہیں؟
-
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar September 30, 2022 at 6:02 amرسول اللہ ﷺ نے تجارت نبی بننے سے پہلے کی تھی۔ نبوت کے بعد آپ نے کوئی ذریعہ معاش اختیار نہیں کیا۔ یہ آپ کا کام نہیں تھا۔ آپ بھی معاش میں مصروف ہو جاتے تو کار نبوت انجام دینے میں کوتاہی ہوتی۔
سب صحابہ نے علم دین کے لیے خود کو وقف نہیں کیا تھا۔ جن صحابہ نے خود کو وقف کیا ان کی دیکھ بھال دیگر صحابہ کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ اس کی ایک مثال ہیں۔ حضرت عمر کے زمانے میں جب نظام تشکیل پانے لگا تو مسجد کے ائمہ اور مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔ اسی طرح مجاہدین کی تنخواہیں مقرر ہوئیں۔ بعد کے دور میں خلفا نے اہل علم کے بڑے بڑے وظائف مقرر کیے کہ وہ اپنا علمی کام دل جمعی سے کریں۔
یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک شخص خود کو دین میں قابلیت کے لیے وقف کرے اور لوگوں کو اپنے علم سے فائدہ پہہچانے کے لیے دستیاب بھی رہے تو پھر اپنے معاش کے لیے خود فکر میں مبتلا بھی رہے۔ ایسا حقییقی دنیا میں نہیں ہوتا۔ ہر شعبہ علم کمال مہارت اور امور کی انجام دہی کے لیے مکمل وقت مانگتا ہے جس کی قمیت فائدہ اٹھانے والے کے سماج کو دینا ہوتی ہے۔
بنی اسرائیل اور انبیا کی مثال سے فقط ایک جہت سے دی گئی تھی کہ جب کسی کو کسی کام کے لیے مشغول کر لیا جائے تو خدا بھی ان کے معاشی بندوبست کا ذمہ دار معاشرے کو بناتا ہے۔ اس کے بعد جو نتائج آپ نے نکالا وہ مثال سے مراد ہی نہیں۔ کسی مثال یا تشبیہ میں اس مثال کے سارے پہلو مراد نہیں ہوا کرتے۔
-
Ali Raza
Member September 30, 2022 at 7:45 pmحضور آپکا جواب پھر کئی سوالوں کو جنم دے رہا ہے
لیکن میں سوال کی بجائے اپنی رائے دے کر اس نشست کو ختم کرنا چاہتا ہوں
یہ شائد میری کم علمی ہے کہ میں آپ کی دی ہوئ مثالوں (دلیل)کو سمجھ نہیں پا رہا
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ حضرت عمر فاروق رض نے بطور حکمران جو انہوں نے سرکاری شعبہ جات تشکیل دیے انکو بنیاد بنا کر اج جو گلی محلوں میں پشہ ور بیھٹے ہیں آپ انکو غیر ضروری رعایت دے رہے ہیں۔
جہاں تک بات ہے حضرت ابو ہریرہ رض کی تو آپ نے خلفاء کہ ہی عہد حکمرانی میں دینی تعلیم کے علاؤہ بطور قاضی، سپاہی اور ملٹری گورنر فرائض سرانجام دیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلان نبوت کے بعد نبوت کا ادارہ (حقیقی بنیادوں پر) اور اسلامی ریاست فکری بنیادیں پر وجود میں آچکی تھی
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم براہ راست معاش کی فکر سے اس بنیاد پر الگ ہوگئے کیونکہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ادارہ نبوت)اور فروغ اسلام کے روح رواں تھے۔
حضور حکومت کا علم دانش کہ فروغ کے لیے مقرر کرنے اور لوگوں کا گلی محلوں میں امام مسجد،ثنا خواں اور محافل میں مقررین کرایہ پر لانے میں میرے نزدیک بہت فرق ہے
دینی تعلیم حاصل کرنا اور دوسروں تک اس علم کو پہچانا یقیناً ایک احسن عمل ہے لیکن اسے ایک پیشہ (روزگار) سمجھ کر اختیار کرنا میرے نزدیک ٹھیک نہیں ہاں اگر حکومت اپنی سرپرستی میں اہل علم سے کام لیتی ہے اور انہیں بدلے میں اجرت بھی دیتی ہے تو اس میں ہرج نہیں ۔
آپکا بہت شکریہ آپ نے اپنا قیمتی وقت اس بندہ ناچیز کو دیا، کوئ بات گراں گزری ہوتو معذرت
اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کا سایا آپ پر قایم رکھے آمین
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar October 3, 2022 at 12:43 amاختلاف راے میں کوئی حرج نہیں، آپ کو حق ہے جو راے دکھنا چاہیں رکھیے۔
بس استدلال واضح رہنا چاہیے۔ میں نے جو عرض کیا وہ اصولی موقف ہے۔ آپ کو جو اعتراض ہے وہ اس اصول کا اطلاقی پہلو ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا کر گلی محلوں میں لوگ دین کے نام پر اپنی دکانیں کھولیں بیٹھیں ہیں۔ اس احساس میں میں بھی آپ کا ہمنوا ہوں۔ مگر آپ کا سوال چونکہ اصولی نوعیت کا تھا تو اصولی طور پر تو دینی خدمات کا معاوضہ طلب کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہو سکتی ۔ مسئلہ اس کی اس صورت کا ہے جس پر آپ کو اور مجھے بھی اعتراض ہے۔ اس صورت کی خرابی کو ایڈریس کیا جائے گا مگر اصول کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
Sponsor Ask Ghamidi