مکہ سبا یمن کی ملکہ تھی اور سلیمان فلسطین میں تھے۔ یہ ہمسایہ ریاستیں تھیں۔ اس لیے ایک دوسرے کے حالات سے بے خبر نہیں تھے۔ حضرت سلیمان کی شہرت اس وقت اطراف میں ہر جگہ پھیل چکی تھی۔ حضرت سلیمان کی یہ اوپن پالیسی تھی کہ وہ ہمسایہ ریاستوں کو باجگزار بنا لیتے تھے۔ یہ تورات کے حکم کے مطابق وہ کر رہے تھے۔ اسی سلسلے میں ہدہد نے انھیں اطلاع دی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہدہد حضرت سلیمان کے ارادوں سے باخبر ہو کر ہی اس ملک کی خبر لینے نکل پڑا تھا۔
ہمسایہ ریاستوں کو باجگزار بنانے کے حکم کا اتمام حجت سے تعلق نہیں۔ یہ خدا کی بنائی ہوئی ریاست فلسطین کی حفاظت کے لیے اقدام کا حکم تھا۔ اس کے لیے بھی لیکن خدا نے انتظار کیا کہ یہ قومیں اپنا اعمال کا پیمانہ بھر لیں اور اپنی تباہی کی مستحق ہو جائیں۔ اس کا ذکر تورات میں کیا گیا ہے
۔ تاہم، اتمام حجت بھی کیا گیا۔ان پر اتمام حجت تبھی ہو گیا تھا جب فرعون غرق ہوا تھا۔ سمندر پھٹا تھا اور بے یارو مددگار بنی اسرائیل فاتح ٹھہرے تھے۔ یہاں ہی حق واضح ہوگیا تھا۔ اس کے بعد خدا کی معیت کی مسلسل تاریخ ہے جو اس خطے میں بنی اسرائیل کے ذریعے سے مسلسل موجود رہی۔ تورات کا یہ اقتباس دیکھیے۔
“اپنی شفقت سے تو نے عوضانہ دے کر اپنی قوم کو چھٹکارا دیا اور اس کی رہنمائی کی ہے، اپنی قدرت سے تونے اسے اپنی مقدس سکونت گاہ تک پہنچایا ہے۔ یہ سن کر دیگر قومیں کانپ اٹھیں، فلستی ڈر کے مارے پیچ و تاب کھانے لگے۔ ادوم کے رئیس سہم گئے، موآب کے راہنماؤں پر کپکپی طاری ہوگئی، اور کنعان کے تمام باشندے ہمت ہار گئے۔ دہشت اور خوف ان پر چھا گیا۔ تیری عظیم قدرت کے باعث وہ پتھر کی طرح جم گئے۔ اے رب، وہ نہ ہلے جب تک تیری قوم گزر نہ گئی۔ وہ بے حس و حرکت رہے جب تک تیری خریدی ہوئی قوم گزر نہ گئی۔ اے رب، تو اپنے لوگوں کو لے کر پودوں کی طرح موروثی پہاڑ پر لگائے گا، اس جگہ پر جو تو نے اپنی سکونت کے لیے چن لی ہے، جہاں تو نے اپنے ہاتھوں سے اپنا مقدس تیار کیا ہے۔ رب ابد تک بادشاہ ہے!” (خروج، 15: 13-18)