-
Quran 38:33 – Prophet Suleman And Killing Of Horses
غامدی صاحب کے ترجمے میں ہے کہ داؤد علیہ السلام گھوڑوں میں مشغول تھے آپ کی عصر نماز قضا ہوگئی آپ نے گھوڑوں پر تلوار چلا کر پنڈلیاں اور گردنیں کاٹ دیں۔
حالانکہ انکی قضا نماز میں گھوڑوں کا کوئی قصور نہیں تھا تو بے زبان جانوروں کو کیوں قتل کیا؟
تین باتیں اپنی طرف سے بڑھانی پڑتی ہیں جن کا کوئی ماخذ نہیں ہے۔ اوّلاً وہ فرض کرتا ہے کہ حضرت سلیمان کی نماز عصر اس شغل میں چھوٹ گئی، یا ان کا کوئی خاص وظیفہ چھوٹ گیا جو وہ اس وقت پڑھا کرتے تھے۔ حالانکہ قرآن کے الفاظ صرف یہ ہیں، اِنِّی اَحْبَیْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّی۔ ان الفاظ کا ترجمہ یہ تو کیا جاسکتا ہے کہ ” میں نے اس مال کو اتنا پسند کیا کہ اپنے رب کی یاد سے غافل ہوگیا، ” لیکن ان میں نماز عصر یا کوئی خاص وظیفہ مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے۔ ثانیاً وہ یہ بھی فرض کرتا ہے کہ سورج چھپ گیا، حالانکہ وہاں سورج کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ حَتّیٰ تَوَارَتْ بالْحِجَاب کے الفاظ پڑھ کر آدمی کا ذہن بلا تامُّل الصَّافِنَاتُ الْجِیَاد کی طرف پھرتا ہے جن کا ذکر پچھلی آیت میں ہوچکا ہے۔ ثانیاً وہ یہ بھی فرض کرتا ہے کہ حضرت سلیمان نے گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر خالی مسح نہیں کیا بلکہ تلوار سے مسح کیا، حالانکہ قرآن میں مَسْحاً بالسَّیْفِ کے الفاظ نہیں ہیں، اور کوئی قرینہ بھی ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پر مسح سے مسح بالسیف مراد لیا جاسکے۔ ہمیں اس طریق تفسیر سے اصولی اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک قرآن کے الفاظ سے زائد کوئی مطلب لینا چار ہی صورتوں میں درست ہوسکتا ہے۔ یا تو قرآن ہی کی عبارت میں اس کے لیے کوئی قرینہ موجود ہو، یا قرآن میں کسی دوسرے مقام پر اس کی طرف کوئی اشارہ ہو، یا کسی صحیح حدیث میں اس اجمال کی شرح ملتی ہو، یا اس کا اور کوئی قابل اعتبار ماخذ ہو، مثلاً تاریخ کا معاملہ ہے تو تاریخ میں اس اجمال کی تفصیلات ملتی ہوں، آثار کائنات کا ذکر ہے تو مستند علمی تحقیقات سے اس کی تشریح ہو رہی ہو، اور احکام شرعیہ کا معاملہ ہے تو فقہ اسلامی کے مآخذ اس کی وضاحت کر رہے ہوں۔ جہاں ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہو وہاں محض بطور خود ایک قصہ تصنیف کر کے قرآن کی عبارت میں شامل کردینا صحیح ہے؟ ۔
Sponsor Ask Ghamidi