-
Quran 3:81 – Explanation
3:81
وَإِذۡ أَخَذَ ٱللَّهُ مِیثَـٰقَ ٱلنَّبِیِّـۧنَ لَمَاۤ ءَاتَیۡتُكُم مِّن كِتَـٰبࣲ وَحِكۡمَةࣲ ثُمَّ جَاۤءَكُمۡ رَسُولࣱ مُّصَدِّقࣱ لِّمَا مَعَكُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥۚ قَالَ ءَأَقۡرَرۡتُمۡ وَأَخَذۡتُمۡ عَلَىٰ ذَ ٰلِكُمۡ إِصۡرِیۖ قَالُوۤا۟ أَقۡرَرۡنَاۚ قَالَ فَٱشۡهَدُوا۟ وَأَنَا۠ مَعَكُم مِّنَ ٱلشَّـٰهِدِینَ﴿ ٨١ ﴾
• Muhammad Junagarhi:
جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب وحکمت دوں پھر تمہارے پاس وه رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان ﻻنا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے[[یعنی ہر نبی سے یہ وعدہ لیا گیا کہ اس کی زندگی اور دور نبوت میں اگر دوسرا نبی آئے گا تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہوگا، جب نبی کی موجودگی میں آنے والے نئے نبی پر خود اس نبی کو ایمان لانا ضروری ہے تو ان کی امتوں کے لئے تو اس نئے نبی پر ایمان لانا بطریق اولیٰ ضروری ہے۔ بعض مفسرین نے رَسُولٌ مُصَدِّقٌ سے الرَّسُولُ کا مفہوم مراد لیا ہے یعنی حضرت محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی بابت تمام نبیوں سے عہد لیا گیا کہ اگر ان کے دور میں وہ آجائیں تو اپنی نبوت ختم کرکے ان پر ایمان لانا ہوگا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ پہلے معنی میں ہی یہ دوسرا مفہوم از خود آجاتا ہے۔ اس لئے الفاظ قرآن کے اعتبار سے پہلا مفہوم ہی زیادہ صحیح ہے اور اس مفہوم کے لحاظ سے بھی یہ بات واضح ہے کہ نبوت محمدی کے سراج منیر کے بعد کسی بھی نبی کا چراغ نہیں جل سکتا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رضي الله عنه) تورات کے اوراق پڑھ رہے تھے تو نبی (صلى الله عليه وسلم) یہ دیکھ کر غضب ناک ہوئے اور فرمایا کہ (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلى الله عليه وسلم) کی جان ہے کہ اگر موسیٰ (عليه السلام) بھی زندہ ہو کر آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے لگ جاؤ تو یقیناً گمراہ ہو جاؤ گے) (مسنداحمد، بحوالہ ابن کثیر) بہرحال اب قیامت تک واجب الاتباع صرف محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ہیں اور نجات انہی کی اطاعت میں منحصر ہے نہ کہ کسی امام کی اندھی تقلید یا کسی بزرگ کی بیعت میں۔ جب کسی پیغمبر کا سکہ اب نہیں چل سکتا تو کسی اور کی ذات غیر مشروط اطاعت کی مستحق کیوں کر ہو سکتی ہے؟ اصر بمعنی عہد اور ذمہ ہے۔]]۔ فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے، فرمایا تو اب گواه رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔
Aal-E-Imran, Ayah 81
Question: Is there any further explanation of why Nabi PBUH was angered (the tafseer) as it was Hazrat Umer RATU (who could be reading to better answer Yahood’s arguments) plus no doubt on Hazrat Umer RATU faith? I am sure I am not formulating my question correctly. I hope there’s more explanation. JazakAllah.
Sponsor Ask Ghamidi