عَنْ أَبِيْ بُرْدَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ،۱ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’إِنَّ ہٰذِہِ الأُمَّۃَ أُمَّۃٌ مَرْحُوْمَۃٌ، عَذَابُہَا بِأَیْدِیْہَا،۲ إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ دُفِعَ إِلٰی کُلِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ، أَوْ مِنْ أَہْلِ الشِّرْکِ،۳ فَیُقَالُ: ہٰذَا فِدَاؤُکَ۴ مِنَ النَّارِ‘‘.
ابو بردہ اپنے والد عبد اللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ امت(جس میں میری بعثت ہوئی)، وہ امت ہے کہ اِس پر بڑی رحمت ہوئی ہے۔ اِس پر عذاب اِنھی کے ہاتھوں سے آئے گا۔ (پھر) جب قیامت کا دن ہو گا تو وہاں بھی اِن کے اہل ذمہ ۳یا اہل شرک میں سے ہر شخص کو اِنھی میں سے کسی کے حوالے کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ جہنم سے تمھارا فدیہ ہے
_____
۔ اِس روایت کا متن مسند عبد بن حمید ،رقم ۵۴۵سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ ہیں۔ اُن سے یہ روایت اِن مصادر میں نقل ہوئی ہے: مسند ابو داؤد طیالسی، رقم۴۹۶۔مسند احمد ۱۹۲۳۱، ۱۹۲۳۶، ۱۹۰۴۹۔ صحیح مسلم، رقم ۴۹۷۴، ۴۹۷۵۔مسند بزار، رقم۲۶۸۶، ۲۷۸۷۔مسند رویانی،رقم۴۶۳، ۴۸۴۔صحیح ابن حبان، رقم ۶۳۶۔ مسند شامیین، طبرانی،رقم۲۵۰۰۔المعجم الاوسط،طبرانی،رقم۶۳۶۔
۔ بعض روایتوں، مثلاً مسند بزار،رقم۲۶۷۷ میں اِس جگہ یہ الفاظ ہیں:’لَیْسَ عَلَیْہَا فِي الآخِرَۃِ عَذَابٌ، جُعِلَ عَذَابُہَا فِي الدُّنْیَا‘، یعنی اِن کے لیے آخرت میں کوئی عذاب نہیں،اِن کا عذاب دنیا ہی میں رکھ دیا گیا ہے‘‘۔عبد اللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے منقول اِس مضمون کی روایات کے بعض طرق میں قیامت کا ذکر حذف ہوگیا ہے اور اُس کی جگہ دنیوی عذاب کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔روایت کے الفاظ ہیں: ’أُمَّتِيْ ہٰذِہِ أُمَّۃٌ مَرْحُوْمَۃٌ لَیْسَ عَلَیْہَا عَذَابٌ فِي الْآخِرَۃِ، عَذَابُہَا فِي الدُّنْیَا الْفِتَنُ وَالزَّلَازِلُ وَالْقَتْلُ‘ ’’میری یہ امت (جس میں مجھے مبعوث کیا گیا ہے) اُس پر رحم کیا گیا ہے۔اِن پر آخرت میں کوئی عذاب نہیں۔ اِن کا عذاب دنیا ہی میں ہے۔یعنی فتنہ،زلزلہ اور قتل‘‘۔اِس مضمون کی تمام روایات پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک موقع پرعبد اللہ بن قیس رضی اللہ عنہ کے بیٹے ابو بردہ سے سوال کیا گیا تھاکہ جب مسلمانوں کاخدا ،رسول اور اُن کی دعوت سب ایک ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے جنگ کرتے ہیں اورایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں۔اِس کے جواب میں اُنھوں نے اپنے والد سے سنی ہوئی یہی روایت بیان کی کہ ’إنَّ أمتي أمۃٌ مرحومۃ، لیس علیہا في الآخرۃ حساب ولا عذاب‘، اِس کے بعد اُنھوں نے سوال کی مناسبت سے آگے فرمایا: ’إنما عذابُہا في القتل والزلازل والفتن‘۔ یہ غالباً ابو بردہ کے اپنے الفاظ تھے جسے بعد میں روایت کا حصہ سمجھ کر مختلف کتابوں میں قبول کر لیا گیا ہے۔
(Excerpt from Hadith Project)
_____
Source Link: اتمام حجت اور عذاب