عذاب قبر اس کے لیے ہے جس پر اتمام حجت ہو جائے۔ بلکہ ایسے لوگوں کی سزا دنیا ہی میں مل سکتی ہے۔ اسی طرح جزا ہے۔ اتمام حجت ہو جانے والوں کو اس دنیا اور قبر یا برزخ کی زندگی میں جزا دی جاتی ہے۔
رسول اللہ نے یہ دعا اپنے مخاطبین کو اسی لیے سکھائی کہ اس وقت معاملہ اتمام حجت کا ہو چکا تھا۔ ایک خدا خوف شخص یقینا اس انجام سے دوچار نہیں ہونا چاہے گا جس کا اعلان کفار کے لیے کیا گیا۔
اسی طرح مسلمان رہتے ہوئے کوئی بڑا گناہ بھی سزا کا موجب ہو سکتا تھا جیسے چوری اور زنا پر جو سزائیں مقرر کی گئیں، ان کو بھی خدا کا عذاب کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے بھی اس دعا کی تلقین کی گئی کہ کفر نہ سہی، ایسا گناہ کر لینا جو اپنے طرز عمل میں خدا کو نظر انداز کر دینے یا اس کی مخالفت کا گناہ ہو تو وہ بھی موجب عذاب ہے جیسے قتل ، کسی کی جائیداد ہتھیا لینا وغیرہ۔
ہمارے لیے بھی یہی معاملہ ہے۔ اگر کوئی ایسا بڑا گناہ کر دیا گیا جس کی برائی ہمارے نزدیک ثابت ہے مگر اسے جان بوجھ کر کیا گیا تو یہ عذاب کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ دراصل سرکشی کی سزا ہے۔ سرکشی کا مطلب جان بوجھ کر بغیر کسی عذر کے خدا کے حکم کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ یہ چیز وقتی اور جذباتی طور پر سرزد ہو جائے اور آدمی فورا معافی مانگ لے تو معافی مل جاتی ہے مگر جو اپنے سرکشی سے گناہ کیا اور اس پر بضد رہا توبہ بھی نہیں کی تو ایسے سرکش رسول اللہ کے دور میں ہو یا بعد کے، سزا کے مستحق ہیں۔
لیکن کون اس کا مستحق ہے اور کون نہیں، اس کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے۔