Ghamidi Sahab writes:
اِس سے مراد یہاں قرآن ہے، اِس لیے کہ یہی وہ رسی ہے جو آسمان سے زمین تک خدا اور اُس کے بندوں کے درمیان تنی ہوئی ہے۔ ہمارے اور ہمارے رب کے درمیان یہی واسطہ اور یہی عہد و میثاق ہے۔ چنانچہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کے معنی اِس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اُس کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑیں اور کسی حال میں اُس سے الگ نہ ہوں۔ پھر اِس کے ساتھ ’جَمِیْعًا‘ کی قید اور ’لاَ تَفَرَّقُوْا‘ کی نہی بھی ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ اُن کی اجتماعی حیثیت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ وہ سب مل کر اِس رسی کو مضبوطی سے تھامیں اور اِس کو چھوڑ کر اپنے شیرازے کو پراگندہ نہ کریں، بلکہ ایک جمعیت بن کر قرآن سے وابستہ ہوں، اُسے پڑھیں، اُس کی آیتوں پر تدبر کریں، اُس سے نصیحت حاصل کریں، خدا کی اتاری ہوئی ایک میزان عدل کی حیثیت سے اپنے تمام معاملات میں اُسی کو مرجع بنائیں اور اُس کے کسی حکم یا فیصلے کے سامنے کسی دوسری چیز کو ہر گز کوئی وقعت نہ دیں۔