Even if a Hadith is full-proof with respect to its chain of narrators (Sanad), for instance, all the narrators in the chain are Honest, truthful and possess a good memory and the chain is well connected from one narrator to another until it reaches to prophet Muhammad (Sws), still that narration can either be accepted or rejected based on the content of the narration (Matan), whether it be Bukahri or Muslim.
One most famously known principle of Hadith among Mohaddisen is:
ولا يقبل خبر الواحد في منافاة حكم العقل وحكم القرآن الثابت المحكم والسنة المعلومة والفعل الجاري مجرى السنة كل دليل مقطوع به
“A khabar-i wahid cannot be accepted which is against sense and reason, is against an established and explicit directive of the Quran, is against a known Sunnah or is against a practice which is observed like the Sunnah or its conflict with some conclusive argument becomes absolutely evident“.
(Al-Khatib al-Baghdadi writes in Al-Kifayah fi ilm al-riwayah(Madinah: Al-Maktbah al-ilmiyyah, n.d.), 432.)
Therefore, this particular narration cannot be accepted because not only does it go against the Quran (i.e. the context does not support this interpretation of this verse in any way) but it also goes against sense, reason and logic considering the personality of Prophet Muhammad (sws) in the light of established history.
Imam Amin Ahsan Islahi writes while criticizing this narration:
لفظ ’غل‘ کا صحیح مفہوم: ’غل یغل غلولا‘ کے معنی خیانت، بدعہدی اور بے وفائی کرنے کے ہیں۔ یہ لفظ دراصل لفظ ’نصح‘ کا ضد ہے جس کے معنی خیرخواہی اور خیر سگالی کے ہیں۔ اصحابِ لغت میں سے زجاج نے مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ کی تشریح، جیسا کہ صاحب لسان العرب نے تصریح کی ہے، مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَخُوْنَ اُمَّتَہٗ کے الفاظ سے کی ہے ۔ لفظ غِلّ جو قرآن میں متعدد جگہ استعمال ہوا ہے، غِش، عداوت، ضغن (کینہ) حقد اور حسد کے معنی میں استعمال ہوا ہے (لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلاًّ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) اس لفظ کو صرف مالی خیانت کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی دلیل میرے علم میں نہیں آئی۔
آنحضرت صلعم پر منافقین کا الزام اور اس کا جواب: یہ منافقین کے اس الزام کی تردید ہے جو انھوں نے احد کی شکست کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لگایا اور جس کو مسلمانوں کے اندر بد دلی پیدا کرنے کے ارادے سے اچھی طرح پھیلایا۔ الزام یہ تھا کہ ہم نے تو اس شخص پر اعتماد کیا، اس کے ہاتھ پر بیعت کی، اپنے نیک و بد کا اس کو مالک بنایا لیکن یہ اس اعتماد سے بالکل غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمارے جان و مال کو اپنے ذاتی حوصلوں اور امنگوں کے لیے تباہ کر رہے ہیں۔ ہم نے تو واضح طور پر یہ مشورہ دیا تھا کہ شہر کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے لیکن انھوں نے ہمارے مشوروں کی اور ہمارے بھائیوں کی جانوں کی کوئی قدر و قیمت نہ سمجھی اور ان کو ایک بالکل نا مناسب مقام میں لے جا کر دشمن سے تہ تیغ کرا دیا، یہ صریحاً قوم کی بد خواہی اور اس کے ساتھ غداری و بے وفائی ہے۔ اس الزام کی طرف اوپر کی آیات میں بھی اشارات موجود ہیں اور آگے بھی اس کی وضاحت آئے گی۔ قرآن نے یہ ان کے اس الزام کی تردید فرمائی ہے کہ تمھارا یہ الزام بالکل جھوٹ ہے۔ کوئی نبی اپنی امت کے ساتھ کبھی بے وفائی و بد عہدی نہیں کرتا۔ نبی جو قدم بھی اٹھاتا ہے رضائے الٰہی کی طلب میں اس کے احکام کے تحت اٹھاتا ہے۔ وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوتا کہ ہر بدعہدی و بے وفائی خدا کے حضور پیش ہو گی اور یہ بد عہد اپنے کیے کی پوری پوری سزا بھگتے گا۔ رضائے الٰہی کے طالب اور اس کے قہر و غضب کے سزاوار یکساں نہیں ہوں گے۔ ان کے درجے اور ٹھکانے ان کے اعمال کے مطابق الگ الگ ہوں گے۔ اللہ ہر ایک کے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ آیت کی یہ تاویل الفاظ قرآن اور نظم قرآن کے مطابق ہے۔ ارباب تاویل میں سے بھی بعض لوگوں نے، جیسا کہ تفسیر ابن جریر سے واضح ہوتا ہے، یہی تاویل اختیار کی ہے۔ اس وجہ سے اس روایت کو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے جو تفسیر کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے کہ مالِ غنیمت میں سے ایک چادر گم ہو گئی تھی جس کا الزام منافقین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لگایا تھا اور یہ اس کی تردید ہے۔ اول تو یہ روایت بدر کے مالِ غنیمت سے متعلق بیان کی جاتی ہے (اس لیے کہ احد میں مال غنیمت کا کوئی سوال ہی نہیں تھا، اس میں تو مسلمانوں کو شکست ہوئی تھی) اور یہاں حالات پر تبصرہ ہو رہا ہے احد کے۔ اس بیچ میں بغیر کسی قرینہ اور بدون کسی حوالہ کے بدر کے کسی واقعہ کا جس پر ایک عرصہ گزر چکا تھا، ذکر کرنے کا کیا موقع تھا؟ پھر سب سے زیادہ خیال کرنے کی بات یہ ہے کہ منافقین ایسے بے وقوف نہیں تھے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ایسا الزام لگائیں جس کو کوئی بھی باور نہ کرے بلکہ جو شخص بھی سنے اس کو سن کر ہنس دے۔ منافقین تو درکنار آپ کے کٹر سے کٹر معاندین قریش تک کا حال یہ تھا کہ انھوں نے آپؐ پر کسی مالی خیانت کا، خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی، کوئی الزام لگانے کی جسارت کبھی نہیں کی۔ اسلام اور جاہلیت دونوں میں آپؐ امین کے لقب سے مشہور رہے اور آپ کی اس شہرت کی دھاک جس طرح دوستوں پر تھی، اسی طرح دشمنوں پر بھی تھی۔ مالی معاملات میں اگر بعض نادان لوگوں نے حضورؐ کے خلاف کبھی کچھ کہا بھی ہے تو اس کی نوعیت الزامِ خیانت کی نہیں ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ کسی کے مقابل میں کسی کو کچھ زیادہ دے دینے کی ہے۔ ان مواقع پر بھی حقیقت واضح ہو جانے کے بعد الزام لگانے والے فریق نے سخت ندامت کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً فتح مکہ اورغزوۂ حنین کے موقع پر۔ اس وجہ سے یہ بات تو بالکل بعید از عقل معلوم ہوتی ہے کہ منافقین آپؐ پر ایک حقیر چادر کی خیانت کا الزام لگائیں۔ البتہ یہ بات کہہ کر وہ کمزور لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کر سکتے تھے کہ (نعوذ باللہ) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی قوم کے وفادار اور بہی خواہ نہیں ہیں، وہ اپنے حوصلوں پر اپنی قوم کو قربان کر رہے ہیں۔ احد کی شکست کے بعد اس قسم کے پروپیگنڈے کے لیے ان کو ایک موقع ہاتھ آ گیا تھا۔ جس سے انھوں نے فائدہ اٹھایا۔ بالخصوص اس وجہ سے کہ وہ شہر سے باہر نکل کر جنگ کے مخالف تھے لیکن جاں نثار صحابہؓ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رائے قبول نہیں کی۔