یہ ذہنی اور قلبی تنگی ہے جو درست ہدایت نہ ہونے کی وجہ سے انسان میں دنیا کی زندگی کی بظاہر بے مقصدیت کو دیکھ کر پیدا ہوتی ہے۔
اس پر مولانا اصلاحی اور جناب غامدی کا یہ تبصرہ دیکھیے:
یعنی ایسی زندگی ہے جو سکون و طمانیت، شرح صدر اور فراغ خاطر سے محروم ہوگی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ انسان کے اندر ایک خلا ہے جو اللہ کے ایمان کے سوا اور کسی چیز سے نہیں بھر سکتا۔ اِس وجہ سے، جب تک اُس کو ایمان حاصل نہ ہو، کوئی دوسری چیز اُس کو تسلی و طمانیت سے بہرہ مند نہیں کرسکتی۔ دوسری چیزیں، خواہ وہ بظاہر کتنی ہی شان دار اور دل فریب کیوں نہ ہوں، وقتی بہلاوے کا کام تو دے سکتی ہیں، لیکن قلب و روح کی بے قراری کو رفع نہیں کرسکتیں۔ جب بچہ بھوک سے روتا ہے تو اُس کے منہ میں چسنی یا نپل دے کر کچھ دیر کے لیے بہلایا جاسکتا ہے، لیکن وہ آسودہ اُسی وقت ہوتا ہے، جب ماں اُس کو چھاتی سے لگاتی اور اُس کو دودھ پلاتی ہے۔ اِس کے بغیر اُس کی بے چینی نہیں جاتی۔ یہی حال انسان کا ہے۔ وہ اپنے لیے جو اسباب و سامان بھی مہیا کر لے، لیکن اگر وہ خدا کے ایمان سے محروم ہے تو وہ غیر مطمئن، ڈانواں ڈول، اندیشہ ناک، مضطرب اور اندرونی خلفشار میں مبتلا رہے گا، اگرچہ وہ اپنی نمایشوں سے اُس پر کتنا ہی پردہ ڈالنے کی کوشش کرے۔ نفس مطمئنہ کی بادشاہی صرف سچے اور پکے ایمان ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ’اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘۔ ممکن ہے، کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ بہت سے لوگ ایمان کے مدعی ہوتے ہیں، لیکن اُن کی زندگی نہایت پریشان حالی و پراگندہ بالی کی ہوتی ہے۔ برعکس اِس کے کتنے ہیں جو خدا کو محض ایک وہم سمجھتے ہیں، لیکن وہ بڑی بے فکری وطمانیت کی زندگی بسر کرتے ہیں؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہاں بحث ایمان کے مدعیوں سے نہیں، بلکہ حقیقی اہل ایمان سے ہے۔ ثانیاً، جن لوگوں کو خدا سے بے پروا ہونے کے باوجود ہم مطمئن خیال کرتے ہیں، ہم صرف اُن کے ظاہری کروفر کو دیکھتے ہیں ۔ اگر کبھی اُن کے سینوں میں جھانک کر دیکھنے کا موقع ملے، تب معلوم ہو کہ اُن کے اندر کتنے خطرے اورکتنے خلجان چھپے ہوئے بیٹھے ہیں، لیکن یہ ہر ایک کو نظر نہیں آتے۔ اِن کو وہ خود دیکھتے ہیں یا وہ لوگ دیکھ سکتے ہیں جن کے اندر ایمانی بصیرت ہو۔‘‘(تدبرقرآن ۵/۱۰۳)