Forums › Forums › Sources of Islam › Itmam-E-Hujjat And Its Application On Different Groups
Tagged: Itmam-e-Hujjah
-
Itmam-E-Hujjat And Its Application On Different Groups
Posted by Talha Mujahid on September 7, 2023 at 9:25 pmوہ مشرکین، البتہ اِس اعلان براءت سے مستثنیٰ ہیں جن سے تم نے معاہدہ کیا، پھر اُس کو پورا کرنے میں اُنھوں نے تمھارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کی مدد کی ہے۔ سو اُن کا معاہدہ اُن سے اُن کی مدت تک پورا کرو، اِس لیے کہ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو بد عہدی سے بچنے والے ہوں۔
Surah toba ki ayat 4 main to saaf waziaah ha k jis azaab ko ghamidi sb sb mushrikeen ki trf azaab kahtay hain woh sirf unhi per aaya jinhon nay muahida tora. To ghamidi sb kaisay isay itmaam e hujjat ka qanoon kahtay hain?
Dr. Irfan Shahzad replied 1 year, 2 months ago 3 Members · 11 Replies -
11 Replies
-
Itmam-E-Hujjat And Its Application On Different Groups
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar September 11, 2023 at 3:51 amیہ رعایت صرف موقت معاہدات تک کے لیے تھی۔ اگلی آیات 7 میں واضح کیا گیا ہے کہ مشرکین سے کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ معاہدات کی مدت ختم ہونے کے بعد ان مشرکین پر بھی جنگ مسلط کی جانی تھی
كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
موقت معاہدہ صرف قریش کے ساتھ رہ گیا تھا۔ انھوں نے خود ہی اس کی خلاف ورزی کر دی تو پھر دوبارہ معاہدہ نہیں کیا گیا حالانکہ وہ اس پر اصرار کرتے رہے۔
-
Talha Mujahid
Member September 12, 2023 at 7:13 amkia sirf 2 he options diyay gay thay k islaam lay aien ya qatal kr diyay jaein gay ya koi teesra option bhi tha. q k is say to deen main jbar maloom hota ha?
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar September 13, 2023 at 1:57 amیہ جبر نہیں سزا تھی ان کی سرکشی کی۔ ہر رسول کی قوم جس پر اتمام حجت ہوا اور ان کے پاس کوئی عذر نہیں رہ گیا تھا اپنے انکار کا ، انھیں دنیا سے مٹا دیا گیا۔ یہی سزا رسول اللہ ﷺ کے وقت میں مشرکین پر نازل ہوئی جب حجت آخری درجے میں تمام کر دی گئی۔ جبر تب ہوتا جب یہ کہا جاتا کہ اسلام قبول کرو ورنہ مار دیے جاؤ گے، یہاں اس کے برعکس انھیں قتل کا حکم آ گیا تھا، جس سے بچنے کے لیے وہ اسلام قبول کرنے پر خود کو مجبور پاتے تھے۔ یہ خدائی معاملہ تھا ۔ کیونکہ خدا ان کے دلون کا حال جانتا تھا۔ یہ قتال اس کے حکم پر تھا۔ اس لیے یہ جبر نہیں سزا تھی جیسے قوم نوح،، عاد و ثمود وغیرہ پر یہ سزا آئی۔ اس بار چونکہ سزا تلوار کے ذریعے سے دی گئی اس لیے ان کو اپنے بچنے کے لیے ایک صورت مل گئی کہ اسلام قبول کر لیں جس کی گواہی ان کے دل پہلے سے دیتے تھے مگر وہ اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے جب تک کہ موت ان کے سر پر آن کھڑی ہوئی۔
-
Talha Mujahid
Member September 13, 2023 at 2:35 amHujjat tmaam to sb per hui thi k Aap saw Allah k akhri nbi hain to qatal ki sazaa sirf mushrikeen k liyay khaas q thi?
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar September 14, 2023 at 12:01 amیہ شرک کی سزا تھی۔ خدا کی شریعت میں شرک کی سزا موت ہے۔ جب کہ یہود مشرک نہیں تھے موحد تھے، انھیں صرف پیغمبر کے انکار پر موت کی سزا نہیں دی گئی۔ مسیحی چونکہ اپنے شرک (عقیدہ تثلیث) کی تاویل کرتے تھے اس لیے انھیں بھی اصطلاحا مشرک نہیں کہا گیا اور وہ انھیں بھی موت کی سزا نہیں دی گئی۔ یہود نے بھی جب شرک کیا تو انھیں بھی موت کی سزا ہی دی گئی تھی۔ انھوں نے جب بچھڑے کی پوجا کی یہی حکم آیا تھا کہ جنھوں نے وہ شرک کیا، انھیں وہ یہود قتل کریں جنھوں نے شرک نہیں کیا۔
-
Fatima
Member September 14, 2023 at 8:08 amAl-Tawbah – التـَّوْبَة https://www.javedahmedghamidi.org/#!/quran?chapter=9¶graph=2&type=Ghamidi
isme to saaf janab ghamidi sahab keh rahe hai ke muaheda unse kistarha ho sakta hai jo baar baar ise tor rahe hai,jo use nibha rahe hai unse kaha jaraha hai ke jab tak ye seedhe rahe tum bhi seedhe raho yani inhe qatal nahi kiya gaya jab tak ye muahedy ka paas rakhe or ye bhi nahi kaha ke aise logo se muaheda aage nahi kiya jaya chahiye balki ye kaha gaya ki khuda aise logo ko pasand karta hai jo muahedy ko pura karty hai
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar September 15, 2023 at 12:19 amشروع ہی میں بیان ہوا کہ مشرکین سے خدا کوئی معاہدہ کیسے کر سکتا ہے
اللہ اور اُس کے رسول کے ہاں اِن مشرکوں سے کوئی عہد کس طرح باقی رہ سکتا ہے؟
یعنی اصلا تو یہی ہے، مگر حالات کی وجہ سے جو معاہدہ ہو گیا تو اسے اس وقت تک برقرار رکھا جائے گا جب وہ اسے برقرار رکھیں گے۔ معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔ آیت سے واضح ہے کہ یہ معاہدہ قریش کے ساتھ تھا جو صلح حدیبیہ میں ہوا تھا۔ یہ موقت معاہدہ تھا یعنی دس سال کے لیے جنگ بندی کی گئی تھی۔
اس کے بعد ان کے لیے بھی یہی حکم تھا جو سورہ توبہ آیت میں بیان ہوا کہ ان سے قتال کیا جائے گا۔
مزیدغور کیجیے کہ جن کے ساتھ غیر موقت معاہدات تھے، ان کے ساتھ معاہدات ختم کرنے کااعلان کیا گیا ہے اس سورہ کی ابتدا میں اور اسی لیے انھیں چار ماہ کی مہلت دی گئی تھی کہ اس کے بعد ان کے خلاف تلوار اٹھا لی جائے گی۔
اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکوں کے لیے اعلان براءت ہے جن سے تم لوگوں نے معاہدے کیے تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جن کے ساتھ غیر موقت معاہدات تھے، ان کے ساتھ معاہدات فی الفور ختم کر دے گئے۔ اس مین اس کا ذکر نہیں کہ انھوں نے خلاف ورزی کی ہو تو ختم ہوں گے۔
دوسرے وہ معاہدات جو موقت تھے۔ ان کے ختم ہونے کا انتظار کرنے کو کہا گیا۔
اس کے بعد ان کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم تھا ۔
-
-
Fatima
Member September 14, 2023 at 8:21 amshirk ki vajah se unpar qatal ka azaab aaya to phir kyu esmail a.s ke baad muddato edhar nabi nahi aaye kya ye achanak skirk me mubtila hogaye the or dusri taraf ahle kitaab hone par bhi ishaq a.s ke baad bhi lagataar nabi aaty rahe jabki ye kabhi puri tarha shirk me mubtila nahi hue phir kyu inhe nabi ki tarbiyat hamesha darkaar rahi shayad masla shirk se zyaada insaano pe zulm ka hai jo ahle kitaab hamesha karty rahe
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar September 15, 2023 at 12:29 amخود سے کوئی خیال قائم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ قرآن اور بائیبل کا مطالعہ کیا جائے۔ موقف وہ سمجھا جائے جو خدا نے خود بیان کیا ہے۔
انسانوں پر ظلم ایسا مسئلہ نہیں کہ اس کے لیے نبی کی ضرورت ہو۔ انسانوں خود اس کی اصلاح کے لیے کام کرتے رہے ہیں جس کا نتیجہ آج بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی صورت میں سامنے ہے۔ یہ کامیابی انسانوں نے اپنی محنت سے حاصل کی ہے۔ غلامی کا عملی خاتمہ بھی انسانوں نے اپنی کاوش سے کیا ہے۔ ان کاموں کے لیے نبی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
انبیا کی آمد کا مقصد جو قرآن میں بیان ہوا ہے وہ انذار و بشارت ہے۔ وہ لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ موت کے بعد انھین اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا اور اور نیک و بد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
اب آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں۔
بنی اسرائیل پر ہزاروں انبیا آئے اور بنی اسمعیل میں صرف دو یعنی حضرت اسمعیل علیہ السلام اور محمد ﷺ۔ اس کی کوئی وجہ اللہ نے بیان نہیں کی۔ تاہم ہم سمجھ سکتے ہیں کہ انبیا کی آمد اور ان کے ذریعے سے ایک قوم کے وجود کو ایک زندہ خدا کی نشانی بنا کر لوگون کے سامنے پیش کرنا مقصود تھا۔ یہ کام بنی اسرائیل کے ذریعے سے ہو رہا تھا۔ ان کا وجود خدا کے وجود کا گواہ بنتا تھا۔ ان سے خدا کا معاہدہ تھا کہ وہ دین پر عمل پیرا رہے اور دین کی تبلیغ کی تو اس دنیا مین سرفرازی پائیں گے ورنہ ذلت مقدر بنے گی۔ ان کی اچھی اور بری دونوں حالتیں لوگوں کے لیے خدا کی نشانی تھی۔
جب وہ اپنی ٹرم پوری کر چکے تو اب خدا نے وہی معاملہ بنی اسمعیل کے ساتھ کیا۔ خدا ایک کے بعد دوسری قوم کو موقع دیتا رہتا ہے۔ یہاں بھی ہوا۔ اور اس بار معاملہ کامیاب رہا۔ اس قوم نے خدا کا دین بھی محفوظ کیا اور تبلیغ بھی درست کی۔
-
-
Fatima
Member September 15, 2023 at 4:37 pmsir jisko aap insaano ki kavish bata rahe hai ye to qayamat ki nishaniyo me se ek hai jis uno ka zikr aap kar rahe hai vo kitne 100saal pehle bani hai,insaano ko ghulami me jakde hue hazaaro saal ghuzre hai,akhiri nabi se pehle tak iska silsila chalta raha ye nabi ki jad o jahd thi jo sare insaan kuch saal pehle samajh paye hai.
nabi inzaar or basharat ke liye aate hai magar dusre forum pe aapne kaha zulm ke khilaaf jad o jahd karty hai jisme unki jaan bhi jati rahi,
sir aap to quraan se alag tasavvur paish kar rahe hai,quraan kehraha hai ke jab log buraiyo me mubtila ho jaty hai to us qoum ki taraf nabi aaty hai aisi koi qoum nahi rahi jisme khabardar karne wala na aaya ho issy saaf zahir hai ke jo qoum buraiyo me kho jati hai unhe hi zyaada zarorat hoti.
saari baat muahede ki hai jisne nahi toda uske saath jabar nahi jisne tora sirf unhe hi qatal ka hukm hua,aap to sabka qatal bata rahe hai jabki quraan ye nahi keh raha.
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar September 17, 2023 at 11:45 pmآپ نے بہت سے سوال ایک جگہ کر دیے ہیں۔ فی الحال ایک نکتے پر بات کر تےہیں، باقی نکات کے لیے آپ الگ پوسٹ کر سکتی ہیں۔
خیر و شر کا شعور انسان میں پہلے سے دے کر بھیجا گیا ہے۔ اس لیے انسان دنیا میں اچھائی بھی کرتے ہیں اور برائی بھی۔ اور پھر برائی کے خلاف جدو جہد بھی۔ انبیا اس لیے آتے ہیں کہ بتائیں کہ اس جدوجہد کا نتیجہ نکلے گا۔ اچھوں کو ان کی اچھائی اور بروں کو ان کی برائی کا انجام بھگتنا ہوگا۔
اپنے وقت میں اگر ان کے پاس طاقت و اختیار بھی آ گیا تو انھوں نے اپنے دور کی برائیوں کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی۔ غلامی ایسی ہی ایک برائی تھی۔
بات یہ ہے کہ انبیا کے اصل مقصد کو سامنے رکھے بغیر انھیں بھی عام مصلحین کی طرح سمجھ لیا جائے کہ وہ کسی قوم کی آزادی دلانے آئے تھے جیسا کہ موسی علیہ السلام کے بارے مین کہا جاتا ہے، یا برائیاں ختم کرنے آئے تھے، تو یوں کہنا درست نہیں،، برائیاں انھوں نے ختم کیں، جو ان سے ہو سکا، مگر ا ن کا اصل مقصد لوگوں کو انذار و بشارت دینا تھا چاہے۔ یہی بیان ہوا ہے۔ اس سے زائد مقاصد ان کے اگر ہوں تو اس کا علم بھی ہمیں قرآن سے ملنا چاہیے، خود سے نہیں بنا سکتے۔
Sponsor Ask Ghamidi