-
رسول اللہﷺ کو غلط فہمی ہو گئی
اسلام علیکم -میرا سوال قبر کے عذاب کے ضمن میں جو روایت بیان ہوئی ہے ان کی شرح میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ کو فرعون کے متعلق بیان کیئے گئے عذاب سے غلط فہمی ہو گئی جسے دوسرے اہل علم کو ہو جاتی ہے برائے کرم اس کو مزید واضح کر دے میں متن نیچے کاپی کر رہا ہوں
Hadith – عذاب قبر (۱)
SHARE
عذاب قبر (۱)
ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر
ــــــ ۱ ــــــ
يُحَدِّثَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ۱ دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ وَعِنْدِي امْرَأَةٌ مِنَ الْيَهُودِ، وَهِيَ تَقُولُ لِي: أَشَعَرْتِ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ؟ فَارْتَاعَ النَّبِيُّ ﷺ، وَقَالَ: «إِنَّمَا تُفْتَنُ الْيَهُودُ»، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «هَلْ شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ؟»، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ بَعْدَ ذٰلِكَ يَسْتَعِيذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ.
عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، اُس وقت ایک یہودی عورت میرے پاس بیٹھی تھی اور مجھ سےکہہ رہی تھی: کیا تم جانتی ہو کہ تمھیں قبروں میں۱ عذاب دیا جائے گا؟ ۲ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو آپ گھبراگئے اور فرمایا: عذاب اِنھی یہودیوں کو ہوگا۳۔ سیدہ نے بتایا کہ پھر زیادہ دن نہیں گزرے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم جانتی ہو کہ مجھ پر یہ وحی کی گئی ہے کہ تمھیں قبروں میں عذاب دیا جائے گا۴ ؟ سیدہ کہتی ہیں: اِس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے (ہمیشہ ) قبر کے عذاب سے (اللہ کی) پناہ مانگتے ہوئے سنا ہے۔
____________
۱۔ یہاں اور اِس سے آگے ’قبر‘ کا لفظ جہاں بھی آیا ہے ، اُس سے مراد اِسی زمین میں وہ جگہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اُن نفوس کو رکھنے کا اہتمام کیا ہے، جنھیں ملائکہ موت کے وقت انسان کے اِس مادی جسم سے الگ کرکے اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں۔اِس کا علم اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہیں دیا، لہٰذا روایتوں میں وہی لفظ اختیار کرلیا گیا ہے جس سے اُس زمانے کے لوگ واقف تھے، اِس لیے کہ وہ اپنے مُردوں کو بالعموم قبروں ہی میں دفن کرتے تھے۔
۲۔ اصل میں لفظ ’تُفْتَنُوْنَ‘ آیا ہے۔عرب جاہلیت کی زبان میں یہ لفظ جس طرح آزمانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اُسی طرح عذاب دینے کے معنی میں بھی آجاتا ہے۔ قرآن مجید میں اِس کی مثال سورۂ بروج (۸۵) کی آیت ۱۰ میں دیکھ لی جاسکتی ہے ۔چنانچہ آیت کے الفاظ ’اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ‘ کے تحت زمخشری نے لکھا ہے: ’ومعنى فتنوهم: عذبوهم بالنار وأحرقوهم‘(الکشاف۴/ ۷۳۲) ۔
یہودی عورت کی پوری بات غالباً یہ تھی: اللہ تمھیں قبر کے عذاب سے بچائے۔ کیا تم جانتی ہوکہ تمھیں قبروں میں عذاب دیا جائے گا؟ آگے کی روایتوں سے واضح ہے کہ بعض راویوں نے پہلا اور بعض نے صرف دوسرا جملہ روایت کیا ہے۔تاہم دونوں کو ملا کر دیکھا جائے تو اِن میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
۳۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری بات یہاں نقل نہیں ہوئی ، بلکہ صرف وہ جملہ نقل ہوگیا ہے جو غلط فہمی کا باعث بن سکتا ہے۔ اِس طرح کے تصرفات روایتوں میں بالعموم ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ آگے کی روایتوں کو ملا کر دیکھیے تو آپ نے غالباً فرمایا تھا: ’’میں اِس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔یہود کہتے ہیں تو یہ عذاب پھر اُنھی کو ہوگا۔ اُنھوں نے جھوٹی بات کہی ہے، بلکہ وہ تو اللہ پر اِس سے بڑھ کر جھوٹ باندھتے رہے ہیں۔ قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں ہوگا‘‘۔
۴۔اِس سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو راے اِس سے پہلے دی، وہ صحیح نہیں تھی۔اِس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ سورۂ مومن (۴۰) میں آل فرعون کے لیے قیامت سے پہلے جس ذہنی عذاب کا ذکر صراحت کے ساتھ ہوا ہے، اُسے غالباً آپ اُنھی کے ساتھ خاص سمجھتے تھے۔اِس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے ۔اِس طرح کی غلط فہمی جس طرح دوسرے اہل علم کو ہوسکتی ہے ، اُسی طرح پیغمبر کو بھی ہوسکتی ہے۔تاہم اللہ تعالیٰ اُس کی لازماً تصحیح کردیتے ہیں، جس طرح کہ اِس واقعے میں بھی کردی گئی ہے۔چنانچہ معلوم ہوا کہ قرآن میں جو کچھ فرعونیوں کے لیے بیان ہوا ہے، وہی اُن سب لوگوں کے ساتھ بھی یقیناً ہوگا، جن کا معاملہ ایسا واضح ہو، جیسا کہ فرعونیوں کا تھا۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کا حساب پوچھنے اور اُن کے خیر وشر کا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔نیکو کاروں میں سے خاص کر سابقین کے لیے بھی یہی قاعدہ ہے۔
Sponsor Ask Ghamidi