وَلَا تَقْتُلُوْ٘ا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْﵧ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا.(بنی اسرائیل ۱۷: ۳۱)
’’تم لوگ اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم اُنھیں بھی روزی دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ اُن کا قتل یقیناً بہت بڑا جرم ہے۔‘‘
غور طلب یہ ہے کہ یہ ارشاد کن لوگوں کے لیے ہے کہ تمھاری اولاد کو بھی روزی ملے گی، جیسے تمھیں ملتی ہے۔ یہ ان کو کہا جا رہا ہے جن کو اتنی روزی بھی نہیں ملتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو کھلا سکیں اور اس قدر وہ مجبور ہو گئے تھے کہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو قتل کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ تو اس آیت سے یہ استدلال کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ بچے اس بھروسے پر پیدا کرتے چلے جائیں کہ ان کے رزق کا ذمہ خدا پر ہے، وہ انھیں ضرورپہنچائے گا۔ اس کے برعکس یہاں یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ بچے بغیر کسی منصوبہ بندی کے پیدا ہو ہی گئے ہیں تو انھیں خود قتل کر کے ایک اور بڑا جرم نہ کرو۔ جیسی کچھ روزی تمھیں ملتی ہے، انھیں بھی مل سکتی ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے بہتر مل جائے اور یہ بھی نہ ملے۔ بھوک اور مفلسی کے ہاتھوں انھیں مرنا ہے تو یہ فیصلہ قدرت پر چھوڑ دو، خود یہ کام کرنے کا جرم نہ کرو۔