مصحف عثمانی قرات عامہ کے مطابق لکھے گئے تھے ۔ اس وقت جو رسم الخط رائج تھا اسی کے مطابق لکھے گئے تھے۔ اس میں لغت قریش کا لحاظ رکھا گیا تھا کیوں قرآن انھی کے لہجے میں اترا تھا۔
اعراب کا رواج نہیں تھا مگر نقات جتنے موجود تھے وہ لگائے تھے۔ اس دور کا کوئی نسخہ محفوظ نہیں، رکھا گیا۔ اس لیے یہ نہیں بتایا جا سکتا ہے کہ اس دور کا رسم الخط کیسا تھا۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان کے زمانے میں عربی رسم الخط کو ترقی دی گئی تو اس وقت کے سے اب تک اسی رسم الخط میں لکھا جا رہا ہے۔ رسم الخط میں کچھ مزید تبدیلیاں کی گئیں ہیں جو اب تک جاری ہیں۔
قرآن کی قرات بھی ساتھ کی جاتی تھی اس لیے اس کا تلفظ بھی ساتھ معلوم ہو جاتا تھا جیسے ہم اردو اور انگریزی کو اسی طرح پڑھ اور سمجھ لیتے ہیں کیونکہ یہ ان کے الفاظ کے ساتھ ان کا تلفظ بھی ہمیں سکھایا جاتا ہے۔ اس لیے کوئی دقت نہیں ہوتی۔ اسی طرح عربی کے ساتھ ہوا۔