قران مجید کے کچھ خاص اسالیب ہیں۔ ان میں سے ایک ایجاز یعنی بیان میں اختصار برتنا ہے۔ اس کی وجوہات تھیں۔ایک یہ کہ یہ اسلوب عربوں کے ہاں رائج تھا۔ ایسا کلام جس میں سب کچھ کھول کر رکھ دیا جائے کہ قاری کو کوئی ادنی ذہنی مشقت نہ کرنی پڑے، ان کے نزدیک معمولی کلام تھا۔ ہمارے ہاں شاعری میں اسے برتا جاتا ہے۔ مثلاً
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
دونوں مصرعوں کے درمیان معنوی ربط کی دریافت مبہم نہیں، مگر مذکور نہیں، اس کی دریافت قاری کو لطف دیتی ہے اور یہ متکلم کی ذکاوت اور قادر الکلامی پر دلیل ہوتی ہے۔
دوسرے یہ کہ خدا یہ توقع کرتا ہے کہ وہ ذی فہم قاری سے مخاطب ہے۔ جو باتیں خود بخود سمجھ آ جانی چاہییں ہو وہ قاری کی ذہانت اور اس کی ذہنی شمولیت پر چھوڑ دی جاتی ہیں۔ چناں چہ جب وہ اسے پا لیتا ہے تو گویا اسے اپنی دریافت سمجھتا ہے اور کلام سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
تیسرے یہ کہ قرآن مجید کے اوّلین مخاطبین کے سامنے وہ سارے حالت اور سیاق و سباق موجود تھا جس میں قرآن نازل ہو رہا تھا اس لیے قبل از خطاب مفہوم باتوں یا معلومات کو مذکور کیے بغیر کلام شروع کیا جاتا ہے۔ یہ اسالیب اوروہ حالات چونکہ بعد کے لوگوں کے سامنے نہیں ہوتے، اس لیے ان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ترجمہ میں ان محذوفات کا اظہار کر دیا جائے تاکہ عام قاری پورے پس منظر اور ربط کے ساتھ کلام کو سمجھ سکے۔ گفتگو میں بھی یہ اسلوب ایک حد تک عام طو رپر اختیار کیا جاتا ہے۔ مشترکات کی بنا پر understood باتوں کو مذکور کیے بغیر ایجاز و اختصار کے اسلوب پر بات کی جاتی ہے۔ باہر کے کسی شخص کے لیے یہ باتیں مکمل طور پر قابل فہم نہیں ہوتیں جب تک کہ اسے گفتگو کے محذوفات سے آگاہ نہ کر دیا جائے۔