Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums General Discussions فعل ماضی سے حال کے معنی

  • فعل ماضی سے حال کے معنی

    Posted by Abdullah AbdulRahman on July 6, 2024 at 4:53 pm

    السلام علیکم

    موڈریٹرز میں یقیناً عربی پر دسترس رکھنے والے بھی موجود ہیں، ایک مدد چاہیے تھی کہ قرآن میں کئی مقامات پر قرآن ماضی کا صیغہ استعمال کر کے حال کے معنیٰ لے رہا ہے۔ کیوں، اس کا کیا قاعدہ اور اصول ہے اور کیا اس سے ملتی جلتی مثالیں اردو یا انگریزی میں بھی ہیں ۔

    مثلاً: بقرہ آیت 6 میں “انذرتھم” آیا ہے، جسکا معنی تو “تم نے ان کو خبردار کیا” جبکہ عموماً ترجمہ یہ کیا جاتا ہے “تم ان کو خبردار کرو”؟

    اور اسی طرح بقرہ 11 میں جملہ “اذا قیل” جو کہ (جن میں “اذا” تو مستقبل کا اور “قیل” ماضی کا فعل ہے، لیکن اکٹھے) فعل مضارع ہے لیکن بعد میں انکا جواب “قالو”، جو کہ ماضی کا فعل ہے، کے لفظ سے نقل کیا گیا ہے جبکہ عموماً ترجمہ “کہتے تھے” کے بجائے “کہتے ہیں” کیا جاتا ہے۔

    شکریہ

    Dr. Irfan Shahzad replied 4 months ago 2 Members · 3 Replies
  • 3 Replies
  • فعل ماضی سے حال کے معنی

    Dr. Irfan Shahzad updated 4 months ago 2 Members · 3 Replies
  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar July 7, 2024 at 2:13 am

    یہ سارے قواعد عربی کے قواعد کی کتب میں مل جائیں گے۔

    اردو میں بھی اس اسلوب کی ایک مثال موجود ہے۔ شرطیہ جملے میں فعل ماضی استعمال کر لیتے ہیں مگر مراد شرط ہوتی ہے جیسے اگر تم نے انکار کیا تو نتائج کے ذمہ دار تم خود ہو گئے۔

    یہاں ‘انکار کیا’ فعل ماضی ہے۔ مگر مراد شرط معنی ہے نہ ماضی۔

  • Abdullah AbdulRahman

    Member July 7, 2024 at 6:33 am

    اردو میں اگر اس متعلق کوئی کتب موجود ہیں تو نام بتا دیجئے گا، کیونکہ مجھے ابھی تک نہیں ملیں۔

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar July 7, 2024 at 11:04 pm

    بہت سے کتب ہیں جو عربی سکھانے کے لیے موجود ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے عربی کا معلم

    https://archive.org/details/darsenizami.in_201911/page/n20/mode/1up

You must be logged in to reply.
Login | Register