-
فعل ماضی سے حال کے معنی
السلام علیکم
موڈریٹرز میں یقیناً عربی پر دسترس رکھنے والے بھی موجود ہیں، ایک مدد چاہیے تھی کہ قرآن میں کئی مقامات پر قرآن ماضی کا صیغہ استعمال کر کے حال کے معنیٰ لے رہا ہے۔ کیوں، اس کا کیا قاعدہ اور اصول ہے اور کیا اس سے ملتی جلتی مثالیں اردو یا انگریزی میں بھی ہیں ۔
مثلاً: بقرہ آیت 6 میں “انذرتھم” آیا ہے، جسکا معنی تو “تم نے ان کو خبردار کیا” جبکہ عموماً ترجمہ یہ کیا جاتا ہے “تم ان کو خبردار کرو”؟
اور اسی طرح بقرہ 11 میں جملہ “اذا قیل” جو کہ (جن میں “اذا” تو مستقبل کا اور “قیل” ماضی کا فعل ہے، لیکن اکٹھے) فعل مضارع ہے لیکن بعد میں انکا جواب “قالو”، جو کہ ماضی کا فعل ہے، کے لفظ سے نقل کیا گیا ہے جبکہ عموماً ترجمہ “کہتے تھے” کے بجائے “کہتے ہیں” کیا جاتا ہے۔
شکریہ
Sponsor Ask Ghamidi