Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Quran 2:102 – Qissa E Haroot O Maroot

Tagged: ,

  • Quran 2:102 – Qissa E Haroot O Maroot

    Posted by Shaharyar Sabeeh on July 11, 2024 at 2:11 am

    Assalamualaikum!

    غامدی صاحب نے سورۃ البقرہ کی آیت ۱۰۲ کا

    :ترجمعہ یہ کیا

    وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ نَبَذَ فَرِیۡقٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ ٭ۙ کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآءَ ظُہُوۡرِہِمۡ کَاَنَّہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۰۱﴾۫وَ اتَّبَعُوۡا مَا تَتۡلُوا الشَّیٰطِیۡنُ عَلٰی مُلۡکِ سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ مَا کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ کَفَرُوۡا یُعَلِّمُوۡنَ النَّاسَ السِّحۡرَ ٭ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ بِبَابِلَ ہَارُوۡتَ وَ مَارُوۡتَ ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَۃٌ فَلَا تَکۡفُرۡ ؕ فَیَتَعَلَّمُوۡنَ مِنۡہُمَا مَا یُفَرِّقُوۡنَ بِہٖ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجِہٖ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِضَآرِّیۡنَ بِہٖ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ یَتَعَلَّمُوۡنَ مَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ ؕ وَ لَقَدۡ عَلِمُوۡا لَمَنِ اشۡتَرٰىہُ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ ۟ؕ وَ لَبِئۡسَ مَا شَرَوۡا بِہٖۤ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾

    اور (اب بھی یہی ہوا ہے کہ) جب اللہ کی طرف سے ایک پیغمبر [239] اُن پیشین گوئیوں کے مطابق اِن کے پا س آ گیا ہے جو اِن کے ہاں موجود ہیں تو یہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی، اِن میں سے ایک گروہ نے اللہ کی اِس کتاب کو اِس طرح اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا، گویا وہ اِسے جانتے ہی [240] نہیں۔اور (پیغمبر کو ضرر پہنچانے کے لیے) اُس چیز کے پیچھے لگ گئے [241] جو سلیمان کی بادشاہی کے نام پر شیاطین پڑھتے پڑھاتے [242] ہیں۔ (یہ اُسے سلیمان کی طرف منسوب کرتے ہیں)، دراں حالیکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا، بلکہ اِسی طرح کے شیطانوں نے کفر کیا۔ وہ لوگوں کو جادو سکھاتے [243] تھے۔ اور اُس چیز کے پیچھے لگ گئے [244] جو بابل میں دو فرشتوں، ہاروت و ماروت پر اتاری گئی تھی، [245] دراں حالیکہ وہ دونوں اُس وقت تک کسی کو کچھ نہ سکھاتے تھے، [246] جب تک اُسے بتا نہ دیتے کہ ہم تو صرف ایک آزمایش ہیں، [247] اِس لیے تم اِس کفر میں نہ [248] پڑو۔ پھر بھی یہ اُن سے وہ علم سیکھتے تھے جس سے میاں اور بیوی میں جدائی ڈال دیں، [249] او ر حقیقت یہ تھی کہ اللہ کی اجازت کے بغیر یہ اُس سے کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکتے [250] تھے۔(یہ اِس بات سے واقف تھے) اورـ اِس کے باوجود وہ چیزیں سیکھتے تھے جو اِنھیں کوئی نفع نہیں دیتی تھیں، بلکہ نقصان پہنچاتی تھیں، [251] دراں حالیکہ یہ جانتے تھے کہ جو اِن چیزوں کا خریدار ہے، اُس کے لیے پھر آخرت میں کوئی حصہ نہیں [252] ہے۔

    اور اس میں بیان ہاروت اور ماروت کے قصے

    :کی تفسیر کے ایک حصے میں یہ کہا ہے

    اصل میں ’فَلَا تَکْفُرْ‘کے جو الفاظ آئے ہیں، اُن میں نہی نتیجے کے لحاظ سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا یہ علم ایک دو دھاری تلوار کی حیثیت رکھتا ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ تم لوگ اِسے سیکھ کر برے مقاصد کے لیے استعمال کرو گے اور اِس طرح کفر و شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے۔

    :میرا سوال

    کیا ترجمعہ سے یہ بات خوب واضح نہیں ہے کہ یہ علم بذات خود بھی ایک برا اور کفریہ علم تھا؟ جس سے میں بیوی میں جدائی جیسے غلیظ عمل کیے جاسکتے تھے؟

    پھر اس علم کے بارے میں دوسرا مطلب کیوں

    لیا گیا؟

    دراں حالیکہ وہ دونوں اُس وقت تک کسی کو”

    کچھ نہ سکھاتے تھے، [246] جب تک اُسے بتا نہ دیتے کہ ہم تو صرف ایک آزمایش ہیں، [247] اِس لیے تم اِس کفر میں نہ [248] پڑو۔ پھر بھی یہ اُن سے وہ علم سیکھتے تھے جس سے میاں اور بیوی میں جدائی ڈال دیں، [249] او ر حقیقت یہ تھی کہ اللہ کی اجازت کے بغیر یہ اُس سے کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکتے [250] تھے۔(یہ اِس بات سے واقف تھے) اورـ اِس کے باوجود وہ چیزیں سیکھتے تھے جو اِنھیں کوئی نفع نہیں دیتی تھیں، بلکہ نقصان پہنچاتی تھیں، [251] دراں حالیکہ یہ جانتے تھے کہ جو اِن چیزوں کا خریدار ہے، اُس کے لیے پھر آخرت میں

    کوئی حصہ نہیں [252] ہے

    :مولانا مودودی نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے

    اس آیت کی تاویل میں مختلف اقوال ہیں ،”

    مگر”جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ جس زمانے میں بنی اسرائیل کی پوری قوم بابل میں قیدی اور غلام بنی ہوئی تھی ، اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو انسانی شکل میں ان کی آزمائش کے لیے بھیجا ہو گا ۔ جس طرح قوم لوط کے پاس فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں گئے تھے ، اسی طرح ان اسرائیلیوں کے پاس وہ پیروں اور فقیروں کی شکل میں گئے ہوں گے ۔ وہاں ایک طرف انہوں نے بازارِ ساحری میں اپنی دکان لگائی ہو گی اور دوسری طرف وہ اتمامِ حجَّت کے لیے ہر ایک کو خبردار بھی کر دیتے ہوں گے کہ دیکھو ، ہم تمہارے لیے آزمائش کی حیثیت رکھتے ہیں ، تم اپنی عاقبت خراب نہ کرو ۔ مگر اس کے باوجود لوگ ان کے پیش کردہ عملیات اور نقوش اور تعویزات پر ٹوٹے پڑتے ہوں گے ۔ فرشتوں کے انسانی شکل میں آ کر کام کرنے پر کسی کو حیرت نہ ہو ۔ وہ سلطنتِ الٰہی کے کار پرداز ہیں ۔ اپنے فرائضِ منصبی کے سلسلے میں جس وقت جو صورت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے اختیار کر سکتے ہیں ۔ ہمیں کیا خبر کہ اس وقت بھی ہمارے گردوپیش کتنے فرشتے انسانی شکل میں آ کر کام کر جاتے ہوں گے ۔ رہا فرشتوں کا ایک ایسی چیز سِکھانا جو بجائے خود بری تھی ، تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے پولیس کے بے وردی سپاہی کسی رشوت خوار حاکم کو نشان زدہ سِکّے اور نوٹ لے جا کر رشوت کے طور پر دیتے ہیں تاکہ اسے عین حالتِ ارتکابِ جرم میں پکڑیں اور اس کے لیے بے گناہی کے عذر کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :106 مطلب یہ ہے کہ اس منڈی میں سب سے زیادہ جس چیز کی مانگ تھی وہ یہ تھی کہ کوئی ایسا عمل یا تعویذ مِل جائے جس سے ایک آدمی دوسرے کی بیوی کو اس سے توڑ کر اپنے اوپر عاشق کر لے ۔ یہ اخلاقی زوال کا وہ انتہائی درجہ تھا ، جس میں وہ لوگ مبتلا ہو چکے تھے ۔ پست اخلاقی کا اس سے زیادہ نیچا مرتبہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم کے افراد کا سب سے زیادہ دلچسپ مشغلہ پرائی عورتوں سے آنکھ لڑانا ہو جائے اور کسی منکوحہ عورت کو اس کے شوہر سے توڑ کر اپنا کر لینے کو وہ اپنی سب سے بڑی فتح سمجھنے لگیں ۔ ازدواجی تعلق درحقیقت انسانی تمدّن کی جڑ ہے ۔ عورت اور مرد کے تعلق کی درستی پر پورے انسانی تمدّن کی درستی کا اور اس کی خرابی پر پورے انسانی تمدّن کی خرابی کا مدار ہے ۔ لہذا وہ شخص بدترین مفْسِد ہے جو اس درخت کی جڑ پر تیشہ چلاتا ہو جس کے قیام پر خود اس کا اور پوری سوسائٹی کا قیام منحصر ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ابلیس اپنے مرکز سے زمین کے ہر گوشے میں اپنے ایجنٹ روانہ کرتا ہے ۔ پھر وہ ایجنٹ واپس آ کر اپنی اپنی کارروائیاں سناتے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے : میں نے فلاں فتنہ برّپا کیا ۔ کوئی کہتا ہے : میں نے فلاں شر کھڑا کیا ۔ مگر ابلیس ہر ایک سے کہتا جاتا ہے کہ تو نے کچھ نہ کیا ۔ پھر ایک آتا ہے اور اطلاع دیتا ہے کہ میں ایک عورت اور اس کے شوہر میں جدائی ڈال آیا ہوں ۔ یہ سن کر ابلیس اس کو گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو کام کر کے آیا ہے ۔ اس حدیث پر غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے کہ بنی اسرائیل کی آزمائش کو جو فرشتے بھیجے گئے تھے ، انہیں کیوں حکم دیا گیا کہ عورت اور مرد کے درمیان جدائی ڈالنے کا ” عمل “ ان کے سامنے پیش کریں ۔ دراصل یہی ایک ایسا پیمانہ تھا جس سے ان کے اخلاقی زوال کو ٹھیک ٹھیک

    “ناپا جا سکتا تھا ۔

    مولانا کی تفسیر زیادہ بہتر معلوم نہیں ہوتی؟

    کیوں پچھلی تفسیر سے صفلی علوم میں گنجائش نکلتی دکھائی دیتی ہے حالاں کہ اس علم کو ناجائز اور کفر کہا گیا ہے آیت میں نا کہ اس کے کسی نتیجے کو۔

    Jazak Allah.

    Shaharyar Sabeeh replied 3 months, 1 week ago 2 Members · 2 Replies
  • 2 Replies
  • Quran 2:102 – Qissa E Haroot O Maroot

    Shaharyar Sabeeh updated 3 months, 1 week ago 2 Members · 2 Replies
  • Umer

    Moderator July 12, 2024 at 1:29 am

    Ghamidi Sahab has tried to explain his understanding on the basis of the linguistic evidence available in the same Quranic verses. Please see footnotes 244 & 247 of Al-Bayan, which are also reproduced below:

    [244] اِس سے پہلے کا جملہ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، ایک جملۂ معترضہ ہے۔ لہٰذا آیت میں عطف لازماً ’مَاتَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ‘ پر ہے۔ یہ سحر و ساحری سے، جسے قرآن نے یکسر کفر قرار دیا ہے، بالکل مختلف کوئی علم تھا۔یہ بات ’تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ‘ پر اِس کے عطف سے بھی واضح ہے، اِس علم کے لیے ’مَآ اُنْزِلَ‘ کے جو الفاظ آئے ہیں، اُن سے بھی معلوم ہوتی ہے، اور اِس کے لیے لفظ ’فِتْنَۃٌ‘ کے استعمال سے بھی صاف مترشح ہے۔ لہٰذا اُن لوگوں کی راے کسی طرح صحیح نہیں ہے جو اِسے جادو سمجھتے ہیں اور اِس کے لیے اُن دو فرشتوں کے بارے میں جن پر یہ نازل ہوا، ایک فضول سا قصہ بھی سناتے ہیں۔ لیکن یہ اگر جادو نہیں تھا تو سوال یہ ہے کہ پھر یہ کون سا علم تھا؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی اِس کے بارے میں لکھتے ہیں:

    ’’ہمارے نزدیک اِس سے مراد اشیا اور کلمات کے روحانی خواص اور تاثیرات کا وہ علم ہے جس کا رواج یہود کے صوفیوں اور پیروں میں ہوا اور جس کو اُنھوں نے گنڈوں،تعویذوں اور مختلف قسم کے عملیات کی شکل میں مختلف اغراض کے لیے استعمال کیا، مثلاً بعض امراض یا تکالیف کے ازالے کے لیے یا نظر بد اور جادو وغیرہ کے برے اثرات دور کرنے کے لیے یا شعبدہ بازوں وغیرہ کے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یا محبت اور نفرت کے اثرات ڈالنے کے لیے۔ یہ علم اِس اعتبار سے جادو اور نجوم وغیرہ سے بالکل مختلف تھا کہ اِس میں نہ تو شرک کی کوئی ملاوٹ تھی اور نہ اِس میں شیطان اور جنات کو کوئی دخل تھا، لیکن اپنے اثرات و نتائج کے پیدا کرنے میں یہ جادو ہی کی طرح زود اثر تھا۔ ممکن ہے بنی اسرائیل کو یہ علم بابل کے زمانۂ اسیری میں دو فرشتوں کے ذریعے سے اِس لیے دیا گیا ہو کہ اِس کے ذریعے سے بابل کی سحر و ساحری کا مقابلہ کرسکیں اور اپنی قوم کے کم علموں اور سادہ لوحوں کو جادوگروں کے رعب سے محفوظ رکھ سکیں۔ اِس بات کی طرف ہمارا ذہن دو وجہ سے جاتا ہے: ایک تو اِس وجہ سے کہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ بابل میں سحر و ساحری اور نجوم کا بڑا زور تھا۔ دوسری یہ کہ یہ بات سنت اللہ کے موافق معلوم ہوتی ہے کہ اگر کسی جگہ ایک غلط علم کا رعب اور زور ہو جس سے مفسد لوگ فائدہ اٹھا رہے ہوں تو وہاں اللہ تعالیٰ اُس کے مقابلے کے لیے اہل ایمان کو کوئی ایسا علم بھی عطا فرمائے جو جائز اور نافع ہو۔‘‘

    ( تدبر قرآن ۱/ ۲۸۵)

    اِس کے بعد اُنھوں نے لکھا ہے:

    ’’ہمارا خیال یہ ہے کہ اِسی علم کے باقیات ہیں جن کو ہمارے صوفیوں اور پیروں کے ایک طبقہ نے اپنایا اور اِس سے اُنھوں نے لوگوں کو فائدہ بھی پہنچایا، بلکہ واقعات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض حالات میں اِس کی مدد سے اُنھوں نے جوگیوں اور جوتشیوں وغیرہ کے مقابل میں اسلام اور مسلمانوں کی برتری بھی ثابت کی، لیکن اخلاقی زوال کے بعد جس طرح یہود کے ہاں یہ علم علوم سفلیہ کا ایک ضمیمہ اور دکان داری کا ایک ذریعہ بن کے رہ گیا، اُسی طرح ہمارے یہاں بھی یہ صرف پیری مریدی کی دکان چلانے کا ذریعہ بن کر رہ گیا اور حق سے زیادہ اِس میں باطل کے اجزا شامل ہو گئے جس کے سبب سے لوگوں پر اِس کے اثرات بھی وہی پڑے جو قرآن نے بیان فرمائے۔‘‘

    ( ۱/ ۲۸۶)

    [247] اصل میں لفظ ’فِتْنَۃٌ‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس کے معنی امتحان اور آزمایش کے ہیں۔ قرآن میں اِس سے بالعموم وہ چیزیں مراد لی گئی ہیں جو اصلاً انسان کے فائدے ہی کے لیے پیدا کی گئی ہیں، لیکن انسان اپنے استعمال کی غلطی سے اُنھیں اپنے لیے فتنہ بنا لیتا ہے۔ ہاروت و ماروت کی طرف سے اپنے علم کے لیے اِس لفظ کا استعمال دلیل ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ علم کوئی بری چیز نہ تھا۔

  • Shaharyar Sabeeh

    Member July 12, 2024 at 9:28 am

    Aap translation main se ye teen jumlay parhain:
    1.
    پھر بھی یہ اُن سے وہ علم سیکھتے تھے جس سے میاں اور بیوی میں جدائی ڈال دیں
    2.
    اِس کے باوجود وہ چیزیں سیکھتے تھے جو اِنھیں کوئی نفع نہیں دیتی تھیں، بلکہ نقصان پہنچاتی تھیں
    3.
    جو اِن چیزوں کا خریدار ہے، اُس کے لیے پھر آخرت میں کوئی حصہ نہیں [252] ہے
    Ab aap khud batayain k kia tarjuma se aisa maloom nahi horaha jaise bazat e khud ye ilm hi nuqsaan Wala tha? Yani us k ghalat istemal ya ksi ghalat nateejay ko nahi balkay khud is ilm ko bura kaha jaraha hai.
    اور یہ عتف ہونا کسے کہتے ہیں عربی میں؟
    یہ بات تفسیر میں کئی جگہوں پر استعمال ہوتی نظر آتی ہے۔
    Jazak Allah.

You must be logged in to reply.
Login | Register