جن عورتوں کو اپنے سکینڈل بنانے کے ایسے حالات جب پیش ٓآ جاءیں تو وہ انھیں بھی ان ہدیات سے رہنماءی حاصل کرنی چاہیے۔
بغیر ایسے حالات پیدا ہوءے یہ احکام ازواج مطہرات کو بھی نہیں دیے گءے، تو عام خواتین کو بھی نہیں دیے جاءیں گے۔
ازواج مطہرات کو یہ حالات تہمت سے بچانے کے لیے تھے۔ دلوں کی پاکیزگی کی وضاحت علما نے کی ہے کہ اس سے مراد ازواج مطہرات اور صحابہ میں روحانی ماں اور روحانی بیٹوں کا تعلق پیدا کرنا تھا کیوں کہ ازواج مطہرات اب مومنوں کی ماءیں تھیں، یہ حقیقی تعلق نہیں تھا اس لیے اس کے لیے مزید اہتمام کی ضرورت تھی۔
اجماع کا دعوی درست نہیں ہے۔ حجاب کے یہ احکام عام صحابیات نے اختیار نہیں کیے۔
امام ابوجعفر الطحاوی (وفات ۳۲۱ھ) ایک حدیث کا محل واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَكُنَّ أُمَّهَاتُ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ خُصِصْنَ بِالْحِجَابِ مَا لَمْ يُجْعَلْ فِيهِ سَائِرُ النَّاسِ مِثْلَهُنَّ. (شرح معانی الآثار ۴ / ۳۳۴)
’’امہات المومنین پر خاص طور پر حجاب کی پابندی لازم کی گئی، جس میں باقی تمام عورتیں ان کے مانند نہیں ہیں۔“
ابن بطال لکھتے ہیں:
وفيه: أن الحجاب ليس بفرض على نساء المؤمنين، وإنما هو خاص لأزواج النبي، كذالك ذكره اللّٰه في كتابه بقوله: ﴿وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ﴾.(ابن بطال، شرح صحیح البخاری ۶ / ۳۵)
’’اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عام مسلمان خواتین پر حجاب فرض نہیں ہے، بلکہ یہ پابندی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس آیت میں یہی بات بیان فرمائی ہے کہ ’وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ‘۔“
ایک اور حدیث کے تحت بھی قاضی ابو عبد اللہ کا یہی قول نقل کرتے ہیں:
قال القاضي أبو عبد اللّٰه بن المرابط: الاستتار للنساء سنة حسنة، والحجاب على أزواج النبي ﷺ فريضة. (اکمال المعلم ۴ /۲۸۳ )
’’قاضی ابو عبد اللہ المرابط کہتے ہیں کہ عام خواتین کے لیے اپنے جسم کو ڈھانپنا ایک بہت پسندیدہ طریقہ ہے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر حجاب فرض تھا۔“