اسلام علیکم و رحمہ اللہ
سب سے پہلے تو آپ کے اس سوال کی تحسین بنتی ہے کہ یہ سوال اپنی اصل میں واقعی ہی ایک علمی مسلمان کے لیے قابلِ فکر ہے اور مجھے سابقہ سال ہی اِس سوال سے نہایت شدت کے ساتھ واسطہ پڑا تھا۔خدا بھلا کرئے استاد محترم غامدی صاحب کا کہ اُن کی تفسیر قرآن اِس سلسلے میں ملاحظہ کی تو کافی حد تک تشفی ہوگئی لیکن چند پہلو پھر بھی وضاحت طلب تھے تو خدا کی کرنی سے استاد اعظم اصلاحی مرحوم کی تفسیر قرآن اِس سلسلے میں کھل کر سامنے آ ئی اور یوں اِس طالب علم کو اِس سوال کے سلسلے میں مکمل اطمینان حاصل ہوگا۔لہذا آپ کے اِس سوال کے سلسلے میں بھی بطورِ جواب مولانا اصلاحی مرحوم کی تفسیر قرآن کا مطلوبہ حصہ پیش خدمت کیا جارہا ہے۔باغور ملاحظہ فرمائیں۔
وَعَلَّمَ اَدَمَ الۡاَسْمَاءَ كُلَّهَا: اللہ تعالیٰ نے آدم کو کن کے نام سکھائے؟ اس سوال کے جواب میں تین قول ہیں۔ ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے مراد تمام چیزوں کے نام ہیں، دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد فرشتوں کے نام ہیں اور تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد آدم کی ذریت کے نام ہیں۔ ان میں سے جہاں تک دوسرے قول کا تعلق ہے اس کی تائید میں قرآن میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس پر کسی گفتگو کی ضرورت نہیں ہے۔ باقی رہا پہلا اور تیسرا قول تو ان میں سے تیسرا قول ہمارے نزدیک زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے۔ اس کے وجوہ یہ ہیں: اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسماء پر الف لام عہد کا ہے۔ اگر اس کو عہد کا الف لام مانا جائے تو پھر اس سے کچھ خاص ناموں کا مراد لینا صحیح نہیں ہوگا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے لئے ضمیریں اور اشارے وغیرہ جو استعمال ہوئے ہیں وہ تمام تر وہ ہیں جو عربی زبان میں عام چیزوں کے لئے نہیں بلکہ خاص طور پر عقل وادراک اور شعور وارادہ رکھنے والی چیزوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً فرمایا ہے ثُمَّ عَرَضَھُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ (پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا) اَنۡبِؤُنِیۡ بِاَسۡمَاءِ ھٰؤُلَاءِ (مجھے ان لوگوں کے نام بتاو) یٰٓاَدَمُ اَنۡبِئۡھُمۡ بِاَسۡمَائِھِمۡ (اے آدم ان کو ان کے ناموں سے آگاہ کرو) فَلَمَّا اَنۡبَاَھُمۡ بِاَسۡمَائِھِمۡ (تو جب ان کو ان کے ناموں سے آگاہ کیا)۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہاں موقع فرشتوں کو قائل کرنے کا ہے۔ فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کی ذریت کے متعلق یہ گمان رکھتے تھے کہ یہ خلافت پاکر زمین میں فساد مچائے گی اور خونریزیاں کرے گی۔ ان کے اس گمان کی تردید اگر ہو سکتی تھی تو اسی طرح ہو سکتی تھی کہ ان کو ذریت آدم علیہ السلام کا مشاہدہ کرایا جائے اور اولاد آدم میں جو انبیاء ورسل، جو مجددین مصلحین اور جو شہدا وصدیقین پیدا ہونے والے تھے ان سے ان کو آگاہ کیا جائے تاکہ ان پر یہ بات واضح ہو سکے کہ اگر اولاد آدم علیہ السلام کے اندر ایسے لوگوں کے پیدا ہونے کا امکان ہے جو اللہ تعالیٰ کے تفویض کردہ اختیارات کو بے جا طور پر استعمال کریں گے تو ساتھ ہی ان کے اندر ایسے لوگ بھی اٹھیں گے جو خود بھی اس ذمہ داری کا حق ادا کریں گے اور دوسروں کو بھی ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لئے سردھڑ کی بازیاں لگائیں گے۔ یہ تینوں باتیں بڑی اہمیت رکھنے والی ہیں اگر چہ ان میں سے الگ الگ ہر ایک کے متعلق کوئی نہ کوئی کمزور قسم کا اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے لیکن یہ تینوں مجموعی طور پر مل کر نہایت مضبوط دلیل اس بات کی بن جاتی ہیں کہ اسماء سے مراد حضرت آدم علیہ السلام کی ذریت کے نام اور خاص کر ان لوگوں کے نام ہیں جو دنیا میں فساد کو مٹانے اور عدل کو قائم کرنے کے لئے آنے والے تھے۔ رہا یہ سوال کہ آدم علیہ السلام کی یہ ذریت تھی کہاں کہ ان کا مشاہدہ کرایا گیا اور ان کے نام بتائے گئے تو اس سوال کا جواب خود قرآن مجید سے معلوم ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں تصریح موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام نسل آدم علیہ السلام کو ایک مرتبہ نکال کر ان سے اپنے رب ہونے کا اقرار لیا ہے۔
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتَ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا (۱۷۲ اعراف) اور یاد کرو جب کہ تیرے رب نے تمام بنی آدم یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی ذریت کو نکالا اور ان کو خود ان کے اوپر گواہ بنایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے اقرار کیا کہ ہاں ہم گواہ ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بھیجنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے عالم غیب میں ایک مرتبہ تمام نسل آدم علیہ السلام کے ایک اجتماع عام میں ان سے اپنی ربوبیت کا اقرار کرایا ہے۔ اسی اجتماع عام میں آدم علیہ السلام کو ان کی ذریت کے نام بھی بتائے گئے ہوں گے اور اسی موقع پر فرشتوں کے سامنے ان کو پیش کر کے وہ سوال وجواب بھی ہوا ہو گا جس کا یہاں حوالہ ہے۔ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ: یعنی اگر تم اس گمان میں سچے ہو کہ اولاد آدم علیہ السلام خلافت پاکر زمین میں فساد برپا کرے گی تو ان لوگوں کے نام بتاو کہ یہ کون لوگ ہیں، یہ زمین میں فساد برپا کرنے والے ہیں یا اس میں امن اور عدل قائم کرنے والے ہیں؟ اس میں فرشتوں کو قائل کرنے والا پہلو یہ ہے کہ نسل آدم علیہ السلام کے رویہ سے متعلق اگر کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے تو اسی شکل میں قائم کی جاسکتی ہے جب بہ حیثیت مجموعی ان کے بارے میں تمہیں واقفیت ہو۔ لیکن جب اس طرح کی کوئی واقفیت تمہیں نہیں ہے تو پھر اس طرح کی بدگمانی کے لئے بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔