دونوں میں حمل کو چار ماہ سے زائد وقت دینا مقصود ہے تاکہ حمل اتنا نمایاں ہو جائے کہ شک کی گنجائش نہ رہے۔
بیوہ کی عدت کی میں مدت کی اتنی رکھی گئی ہے کیونکہ شوہر کی وفات اچانک ہو سکتی ہے۔ لیکن مطلقہ کے معاملے میں عدت کا لحاظ رکھنے کی ہدایت یہ ہے کہ بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دی جائے جب بیوی سے مباشرت نہ کی گئی ہو۔ یوں طلاق کی عدت شروع ہونے سے پہلے حیض سے قبل طہر کی حالت میں حمل ٹھہر گیا ہو تو اگلے تین حیض یا تین ماہ کو ملا کر حمل کو چار ماہ سے کچھ اوپر وقت مل جاتا ہے۔
حمل کے ساتھ حیض یا خون آنے کا امکان بھی دس سے بیس فیصد خواتین میں پایا جاتا ہے خاص طور پر حمل کے ساتھ پہلا حیض بھی واقع ہو جایا کرتا ہے۔ اس بنا یہ لازم ٹھہرایا گیا کہ اگلے تین حیض تک انتظار کر لیا جائے۔
سائنسی ذرائع کی عدم موجودگی میں حمل کو قطعیت سے معلوم کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا۔
اس موضوع پر میرا مفصل مضمون ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ب https://www.javedahmadghamidi.com/ishraq/5ae43c6195b3f480376f7fb1?articleId=5ae441fa95b3f480376f8040
javedahmadghamidi.com
May / 2018
مطلقہ اور بیوہ کی عدت: ایک جائزہ