طبری کے الفاظ زیادہ واضح ہیں:
ولا يجوز النصب في القراءة لإجماع قرّاء الأمصار على رفعها
یعنی اس کے رفع کے بارے میں یہ راے قاریوں کی تھی نہ کہ یہ قرات عامہ تھی۔ قاریوں کی راے کو بعد میں بعض مفسرین نے غیر احتیاطی طور پر قرات عامہ کہ دیا ہے، حالانکہ اس کی حقیقت محض یہ ہے کہ یہ قاریوں کی راے تھی۔
قرا کا اختیار تسلیم کیا جاتا تھا کہ وہ کسی لفظ کو مختلف طریقے سے بھی پڑھ سکتے تھے، مگر قرات عامہ اپنی جگہ ہی قائم رہتی تھی۔
قرّا کا اجماع کا دعوی بھی ایک دعوی ہے ایسے ہی جیسے دیگر بہت سے امور میں اجماع کا دعوی کر دیا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہین کہ امام عاصم اور امام حفص نے ان کی راے نہیں اپنائی۔ اس لیے اجماع کا دعوی درست نہیں۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرّا کی اکثریت نزاعۃ پر رفع کی قائل تھی۔
یہ ان کی راے ہے جو قرات عامہ کے مطابق نہ تھی۔
قرات عامہ کے تواتر کا دعوی اس لیے کسی ثبوت کا محتاج نہیں کہ مصاحف میں اس کے علاوہ کسی بھی قرات کو قرات عامہ کبھی نہیں کہا گیا نہ اسے مختلف لکھا گیا اور اسے مختلف کو قرات عامہ کہا گیا۔ قرات عامہ کے قرات عامہ ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں، جو مصاحف میں درج ہے۔
قدیم ترین مفسین نے اسی متن کو لے کر تفسیر کی اور اس میں اختلاف بھی ہوا تو اسے ایسے ہی درج کیا جیسے طبری نے ذکر کیا مگر متن کو تبدیل نہیں کیا۔
جو چند لوگ رفع کو قرات عامہ کہ رہے ہین ان کی راے شاذ ہے، اس کے مقابل تواتر کی نفی کسی منفرد آرا سے نہیں ہو سکتی۔
اگر قرات عامہ کے کسی ایک بھی لفظ کو تبدیل کیا گیا ہوتا تو اس کی تاریخ بھی نقل ہونا ضروری تھی۔
اجماع و تواتر کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے تو یہ سوال پیدا نہیں ہوتے۔ بعد میں کسی جیز پر اگر اجماع و تواتر نظر آئے تو تبھی پیدا ہو سکتا ہے جب پہلے ہی سے کوئی اختلاف نہ ہو۔ اصل میں کوئی اختلاف ہو تو بعد میں وہ کبھی اجماع نہیں بنتا۔ اس اجماع میں کوئی تعطل آیا ہو تو وہ لازمی تاریخ کا حصہ ہوتا ہے۔ تعطل کے بعد بھی اجماع قائم نہیں ہوتا۔ پھر تواتر یہ ہوتا ہے کہ پہلے اجماع تھا پھر تعطل آیا اور اس کے بعد پھر اجماع نہ ہو سکا۔
قرآن کی قرات عامہ کو یہ حادثہ کبھی پیش نہیں آیا۔