Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Qirat-E-Aama, Qirat-e-Hafz And Mutawatir Qirat Of Quran

  • Qirat-E-Aama, Qirat-e-Hafz And Mutawatir Qirat Of Quran

    Posted by Muhammad Ikrama on September 23, 2025 at 6:32 pm

    آیت “نزاعة للشوی” کی قراءت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ہم قراءتِ حفص (قراءے عامہ) کے مطابق اسے نَزَّاعَةً (نصب کے ساتھ) پڑھتے ہیں، جبکہ باقی تمام قراء حضرات اسے نَزَّاعَةٌ (رفع کے ساتھ) پڑھتے ہیں۔ آج ہم نے بھی اسے نصب کے ساتھ پڑھا، لیکن اکثر قدیم مفسرین اور قراء رفع کو ہی اختیار کرتے ہیں

    اور رفع کو ہی قراءت عامہ قرار دیا ہے! اس سے سنگین سوال پیدا ہو رہے ہیں ؛

    بغوی:

    نَزَّاعَةً قراءة العامة بالرفع

    البستان في إعراب مشكلات القرآن ٤/‏٦٨ — ابن الأحنف اليمني:

    نَزَّاعَةً لِّلشَّوَى (١٦)﴾؛ أي: هي نَزّاعةٌ لِلشَّوَى، قرأه العامة بالرفع

    مباحث التفسير لابن المظفر الرازي ١/‏٣٠٨

    قراءة العامة ﴿نَزَّاعَةٌ﴾ بالرفع

    Dr. Irfan Shahzad replied 4 days, 9 hours ago 2 Members · 5 Replies
  • 5 Replies
  • Qirat-E-Aama, Qirat-e-Hafz And Mutawatir Qirat Of Quran

    Dr. Irfan Shahzad updated 4 days, 9 hours ago 2 Members · 5 Replies
  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar September 24, 2025 at 11:45 pm

    یہ ایک مسلمہ ہے کہ قرات عامہ ہی مصحف میں لکھی گئی ہے۔ کسی دوسری قرات کو کبھی مصحف میں نہیں لکھا گیا۔ اس لیے قرات عامہ ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہے۔ کسی کے کہنے سے قرات عامہ نہیں بن سکتی۔ یہ تواتر قولی اور تواتر عملی ہے جس نے قرات عامہ کو قرات عامہ قرار دے رکھا ہے۔

    علما میں تواتر ایک متعد بہ تعداد کے اتفاق کو بھی کہ دیا جاتا ہے جب کہ حقیقتا وہ تواتر نہیں ہوتا۔

    دیگر قراءتیں علما اور قرا کے درمیان ہی رہیں ہیں، ان کے درمیان ہی تواتر کا درجہ انھیں دیا گیا ہے۔ مگر وہ تاریخ کے کسی بھی دور میں قرات عامہ نہیں رہیں۔

    قرات عامہ ہی کا دوسرا نام قرات حفص کسی وقت پڑ گیا۔ حفص سے پہلے ہی مصحف بھی اسی قرات عامہ پر مبنی ہیں ۔

  • Muhammad Ikrama

    Member September 25, 2025 at 12:19 pm

    اس پر مزید سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب مفسرین کی اکثریت نے آیت کی تفسیر بھی رفع کی قراءت کے مطابق ہی کی ہے، تو پھر نصب والی قراءت کے تواتر کا دعویٰ کس حد تک معتبر رہ جاتا ہے؟

    خود امام طبری نے نصب کے ساتھ پڑھنے کو ناجائز قرار دیا ہے، اور فراء نے اپنی کتاب معانی القرآن میں نصب والی قراءت کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔

    اگر یہ قراءت واقعی متواتر ہوتی تو اس قدر ناپید کیوں ہے؟

    کیا یہ کہنا زیادہ قرینِ حقیقت نہیں لگتا کہ عثمانی خلفاء اور بعد کی تاریخ میں قراءتِ حفص کو باقاعدہ رواج دیا گیا؟

    پھر سوال یہ ہے کہ محض “یہ تواتر ہے” کہہ دینا، علمی تحقیق کے میدان میں کس حد تک وزن رکھتا ہے؟

    جبکہ پرانے یہ نہیں کہہ رہے کہ اس پر تواتر ہے، وہ اس کے قراءت عامہ ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں!

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar September 25, 2025 at 11:51 pm

    طبری کے الفاظ زیادہ واضح ہیں:
    ولا يجوز النصب في القراءة لإجماع قرّاء الأمصار على رفعها

    یعنی اس کے رفع کے بارے میں یہ راے قاریوں کی تھی نہ کہ یہ قرات عامہ تھی۔ قاریوں کی راے کو بعد میں بعض مفسرین نے غیر احتیاطی طور پر قرات عامہ کہ دیا ہے، حالانکہ اس کی حقیقت محض یہ ہے کہ یہ قاریوں کی راے تھی۔

    قرا کا اختیار تسلیم کیا جاتا تھا کہ وہ کسی لفظ کو مختلف طریقے سے بھی پڑھ سکتے تھے، مگر قرات عامہ اپنی جگہ ہی قائم رہتی تھی۔

    قرّا کا اجماع کا دعوی بھی ایک دعوی ہے ایسے ہی جیسے دیگر بہت سے امور میں اجماع کا دعوی کر دیا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہین کہ امام عاصم اور امام حفص نے ان کی راے نہیں اپنائی۔ اس لیے اجماع کا دعوی درست نہیں۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرّا کی اکثریت نزاعۃ پر رفع کی قائل تھی۔

    یہ ان کی راے ہے جو قرات عامہ کے مطابق نہ تھی۔

    قرات عامہ کے تواتر کا دعوی اس لیے کسی ثبوت کا محتاج نہیں کہ مصاحف میں اس کے علاوہ کسی بھی قرات کو قرات عامہ کبھی نہیں کہا گیا نہ اسے مختلف لکھا گیا اور اسے مختلف کو قرات عامہ کہا گیا۔ قرات عامہ کے قرات عامہ ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں، جو مصاحف میں درج ہے۔

    قدیم ترین مفسین نے اسی متن کو لے کر تفسیر کی اور اس میں اختلاف بھی ہوا تو اسے ایسے ہی درج کیا جیسے طبری نے ذکر کیا مگر متن کو تبدیل نہیں کیا۔

    جو چند لوگ رفع کو قرات عامہ کہ رہے ہین ان کی راے شاذ ہے، اس کے مقابل تواتر کی نفی کسی منفرد آرا سے نہیں ہو سکتی۔

    اگر قرات عامہ کے کسی ایک بھی لفظ کو تبدیل کیا گیا ہوتا تو اس کی تاریخ بھی نقل ہونا ضروری تھی۔

    اجماع و تواتر کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے تو یہ سوال پیدا نہیں ہوتے۔ بعد میں کسی جیز پر اگر اجماع و تواتر نظر آئے تو تبھی پیدا ہو سکتا ہے جب پہلے ہی سے کوئی اختلاف نہ ہو۔ اصل میں کوئی اختلاف ہو تو بعد میں وہ کبھی اجماع نہیں بنتا۔ اس اجماع میں کوئی تعطل آیا ہو تو وہ لازمی تاریخ کا حصہ ہوتا ہے۔ تعطل کے بعد بھی اجماع قائم نہیں ہوتا۔ پھر تواتر یہ ہوتا ہے کہ پہلے اجماع تھا پھر تعطل آیا اور اس کے بعد پھر اجماع نہ ہو سکا۔

    قرآن کی قرات عامہ کو یہ حادثہ کبھی پیش نہیں آیا۔

  • Muhammad Ikrama

    Member September 26, 2025 at 12:06 am

    پرانے مفسرین جب تفسیر کرنے سے پہلے قراءت ثبت کرتے تھے! اس پر اعراب تو موجود نہ ہوتے تھے! یہ کیسے معلوم ہو گا کہ انھوں نے متن میں بھی رفع لکھا ہے یا نصب؟

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar September 26, 2025 at 11:15 pm

    قرات سے معلوم ہوتا تھا۔ قرآن اصلا قرات ہے، مصاحف اس کے تتبع میں ثبت ہوتے رہتے ہیں۔ آج بھی یہی صورت حال ہے کہ قرآن چھپ کر حفاظ کے پاس بھیجا جاتا ہے اور وہ تصدیق کرتے ہیں کہ قرآن درست چھپا ہے یا نہیں۔

    طبری سمیت جب ہر کوئی نصب کے ساتھ اس لفظ کو لکھ رہا ہے تو یہ تواتر کا اعتراف ہے۔ اس کے بعد جن لوگوں کسی دوسری قرات کو متواتر یا قرات عامہ قرار دیا ہے بار ثبوت ان کے ذمے ہے کہ تمام مسلمانوں تمام علما کے ہاں اس کا تواتر ثابت کریں۔ لیکن اس کو مد نظر رکھیے کہ جب تواتر ثابت کرنا پڑے تو یہ خود اس کی دلیل ہے کہ تواتر نہیں ہے۔ کیونکہ تواتر ثابت کرنا نہیں پڑتا۔

You must be logged in to reply.
Login | Register