Hassan Ilyas saheb wirtes on this issue:
رسول اللہ ﷺ کی نسبت سے بیان ہونے والی وہ روایات جن سے زیورات پر زکوٰۃ کے وجوب کا استدلال کیا جاتا ہے، درج ذیل ہیں:
1-حضرت عائشہؓ کی روایت
آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ کیا وہ اپنی چاندی کی انگوٹھیوں کی زکوٰۃ دیتی ہیں؟ جب انہوں نے انکار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
“یہی تمہارے لیے جہنم کی آگ کے لیے کافی ہیں۔” (سنن ابی داود: 1558)
2-حضرت ام سلمہؓ کی روایت
“میں نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ اگر ایک عورت کے پاس سونے کا زیور ہو، تو کیا یہ کنز (جمع شدہ دولت) میں شمار ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: “اگر وہ اس کی زکوٰۃ ادا کرے تو وہ کنز نہیں رہتا۔”” (سنن ابی داود: 1564)
3-سونے کے کڑوں والی روایت
“نبی کریم ﷺ نے ایک عورت کو سونے کے موٹے کڑے پہنے دیکھا اور فرمایا: ‘کیا تم ان کی زکوٰۃ دیتی ہو؟’ جب اس نے انکار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ‘کیا تمہیں پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے بدلے آگ کے کڑے پہنائے؟'” (سنن ابی داود: 1563)
وہ فقہاء جو روزمرہ استعمال کے زیورات پر زکوٰۃ کے قائل نہیں، وہ ان احادیث کی تاویل میں مختلف علمی توجیحات پیش کرتے ہیں،جن میں سے قابل ذکر درج ذیل ہیں:
– یہ احادیث ضعیف یا غیر صریح ہیں.
بعض محدثین کے نزدیک یہ احادیث یا تو سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں، یا ان میں زکوٰۃ کے وجوب کی صراحت نہیں پائی جاتی۔
2- مخصوص اطلاقی ہدایت
فقہائے شوافع اور مالکیہ کے مطابق، یہ احادیث ان زیورات سے متعلق ہیں جو بطورِ دولت ذخیرہ کیے گئے ہوں، جبکہ عام استعمال میں آنے والے زیورات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔
3- اصل اصول میں تبدیلی ممکن نہیں
کچھ محدثین کے نزدیک یہ احادیث درحقیقت زکوٰۃ کی ترغیب کے لیے وارد ہوئی ہیں، نہ کہ زکوٰۃ کے وجوب کی قطعی دلیل کے طور پر۔
اس رحجان کے اصحاب علم ان آثار و روایات سے بھی اس اجتہاد کی تائید کا اشارہ کرتا ہیں جہاں صحابہ و تابعین اسی موقف پر کھڑے ہیں، ایسے چند شواہد درج ذیل ہیں:
. جابر بن عبد اللہؓ: لَیْسَ فِی الْحُلِيِّ زَکَاةٌ (دارقطنی: 170، بیہقی: 7959)
2. انس بن مالکؓ: ان کی بہن کے زیور پر زکوٰۃ نہیں دی جاتی تھی (دارقطنی: 171)
3. عبد اللہ بن عمرؓ: اپنی بیٹیوں کے زیور پر زکوٰۃ نہیں دیتے تھے (مصنف ابن ابی شیبہ: 10399)
4. عائشہؓ اور اسماءؓ: ان کے زیورات پر زکوٰۃ کی ادائیگی ثابت نہیں (مصنف ابن ابی شیبہ: 10398)
5. امام مالکؒ: زیور کو استعمالی اشیاء میں شمار کرتے ہیں، اس پر زکوٰۃ نہیں (الموطأ: 1/251)