Forums › Forums › Epistemology And Philosophy › A Question On The Concept Of Hoor!
Tagged: Critisicm, Jannah, Misconceptions
-
A Question On The Concept Of Hoor!
Posted by Muhammad Ikrama on March 26, 2025 at 10:08 amسورہ الرحمن کی آیت ۵۶ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جنت میں بھی کوئی عورت تیار کی جائے گی، اس کو حور کہنے سے گریز کرتا ہوں کیونکہ حور ایک اسم صفت ہے، لیکن جس طرح وہاں پھل ہونگے لیکن وہ پھل دنیا کے نہ ہوں گے، اسی طرح وہ عورتیں بھی دنیا کی نہ ہوں گی کیوںکہ اللّٰہ فرماتا ہے کہ اس سے پہلے انکو نہ کسی جن نے اور نہ ہی کسی انسان نے چھوا ہوگا۔ “فیهن کے الفاظ اس بات کی صراحت کر رہے ہیں کہ وہ جنت کی ہی عورتیں ہیں۔ ابن عاشور جو کہ رمام آیات میں غامدی صاحب والا موقف رکھتے ہیں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
“”الطَّمْتُ کا مطلب ہے کنواری عورت سے تعلق قائم کرنا۔ یہاں “لَمْ يَطْمِتُهُنَّ” سے مراد ان کی کنوار بن کو بیان کرنا ہے۔ یہ جنت کی عورتیں ہیں، نہ کہ دنیا کی وہ بیویاں جو مؤمنین کی تھیں، کیونکہ ان کے شوہروں نے انہیں دنیا میں چھوا ہوگا۔ دنیا کی بیوی جنت میں اسی کے ساتھ ہوگی جو اس کا آخری شوہر تھا۔””
اس میں بے جا تاویلات کرنا مناسب نہیں لگتا۔
Dr. Irfan Shahzad replied 3 days ago 2 Members · 2 Replies -
2 Replies
-
A Question On The Concept Of Hoor!
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar March 28, 2025 at 4:22 amحور کی بارے میں غامدی صاحب کا موقف وہی ہے جو صحابہ اور قدما کا تھا۔ بعد میں اس میں تبدیلی ہوئی۔
اس کے تفصیلی پروگرام دیکھیے ۔
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar March 28, 2025 at 4:23 amاس پر حسن الیاس صاحب کا آرٹیکل بھی دیکھیے
قرآن کی “حور” کیا کوئی الگ مخلوق ہے؟
(محمد حسن الیاس)
قرآن مجید نے جنت کی عورتوں کی جن صفات کا ذکر کیا ہے، ان میں ایک نمایاں وصف ان کا “حور” ہونا ہے۔ یہ لفظ ان خواتین کے لیے استعمال ہوا ہے جو کشادہ آنکھوں اور نکھری ہوئی رنگت کی حامل ہوں۔ عربی زبان میں “حور” اُن عورتوں کو کہا جاتا ہے جن کی آنکھوں میں سفیدی اور سیاہی کا دلکش امتزاج ہو، اور جن کا حسن نگاہوں کو بھا لینے والا ہو۔
ابن منظور لسان العرب میں لکھتے ہیں:
“الحُور: شدّةُ بياضِ العينِ في سوادِها مع شدّةِ سوادِها”
یعنی: “حور وہ عورت ہے جس کی آنکھ کی سفیدی بہت نمایاں ہو، اور سیاہی گہری ہو۔”
یوں عربی زبان تہذیب اور معاشرت میں “حور” کا تصور ایک صفاتی استعارے کے طور پر رائج تھا، جو گوری، آہو چشم اور دل لبھانے والی عورتوں کے لیے استعمال ہوتا تھا.
قرآن نے “حور” کا ذکر اسی معروف لسانی پس منظر میں کیا ہے، اور جن خواتین کی صفات کو اس عنوان سے بیان کیا ہے، وہ کوئی اجنبی یا صرف جنت کے لیے تخلیق کی گئی مخلوق نہیں، بلکہ وہی نیک، باحیا اور صالح عورتیں ہیں جو دنیا میں ایمان و عملِ صالح کے ساتھ زندگی گزاریں گی اور اسی بنیاد پر جنت میں داخل ہوں گی۔
اسی لیے قرآن جنت کی رفاقت کو بھی ایمان و کردار کی بنیاد پر استوار کرتا ہے، نہ کہ کسی غیر متعلق یا اجنبی مخلوق پر۔
قرآن واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ جنت میں مرد و عورت، دونوں کو ان کے اعمال کے مطابق جوڑوں کی صورت میں ایک ساتھ رکھا جائے گا جیسے کہ اس کی منشا دنیا میں ہے۔ سورۂ نور میں فرمایا گیا ہے:
“الطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ”
(النور: 26)
یعنی: “نیک عورتیں نیک مردوں کے لیے ہیں، اور نیک مرد نیک عورتوں کے لیے۔”
اور اسی حقیقت کو سورہ یٰسین میں یوں بیان کیا گیا ہے:
“هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِئُونَ”
(یٰسین: 56)
“وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔”
اور مزید فرمایا:
“جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ”
(الرعد: 23)
“ہمیشہ رہنے والی جنتیں جن میں وہ داخل ہوں گے، اور ان کے وہ والدین، ازواج اور اولاد بھی جو نیک ہوں گے۔
یہ تمام آیات اس حقیقت کو مکمل طور پر واضح کرتی ہیں کہ جنت میں داخلہ محض جنس یا خواہش کی بنیاد پر نہیں، بلکہ استحقاق اور نیک عمل کی بنیاد پر ہوگا۔ اسی اصول پر جنت کی رفاقت بھی استوار ہوگی, کسی اجنبی، غیر انسانی یا نئی مخلوق کے ساتھ نہیں، بلکہ انہی نیک، باحیا اور صالح خواتین کے ساتھ جو دنیا میں ایمان، تقویٰ اور طہارت کے راستے پر قائم رہیں۔
جنت کا نظام اس حکمت کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے کہ وہاں ہر فرد کو اس کے روحانی مقام، باطنی مزاج اور اخلاقی ہم آہنگی کے مطابق ساتھی عطا کیا جائے گا۔جنت کی رفاقت صرف جسمانی نہیں بلکہ صفاتی، روحانی اور باطنی مطابقت پر قائم ہوگی جو جنت کے ابدی سکون اور اطمینان کا اصل سرچشمہ ہے۔
تاہم بعض لوگوں نے سورۂ الرحمن کی آیت لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ”جنھیں اُن سے پہلے کسی انسان یا جن نے ہاتھ نہیں لگایا ہو گا کو بنیاد بنا کر یہ تصور قائم کر لیا ہے کہ جنت کی “حوریں” کوئی الگ، غیر زمینی اور ماورائی مخلوق ہیں۔
اگرچہ قرآن مجید کا یہ بیان اپنی جگہ بالکل واضح اور بے غبار ہے، لیکن منبروں پر سنائی جانے والی ضعیف روایات، من گھڑت حکایات اور واعظانہ ذوق کی حامل تعبیرات کی روشنی میں یہ مفروضہ قائم کر لیا گیا کہ چونکہ ان پر کسی انسان یا جن نے ہاتھ نہیں رکھا، لہٰذا یہ لازماً کوئی نئی، اجنبی، ماورائی اور غیر انسانی مخلوق ہی ہوں گی۔ یوں ایک ایسا نیا تصور پیدا ہوا جو نہ صرف قرآن کے سیاق و سباق سے ہٹا ہوا ہے، بلکہ اس کی مجموعی اسکیم سے بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔
لیکن یہی تو قرآن کا اعجاز ہے کہ وہ اپنی تمثیلات اور اشارات سے پیدا ہونے والی ہر امکانی غلط فہمی کی اندرونی وضاحت اس انداز سے کرتا ہے کہ کسی خارجی تعبیر، اضافی تاویل یا بیرونی وضاحت کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔
وہ جہاں کہیں کوئی اشکال پیدا ہونے کا احتمال ہو، وہاں دوسری جگہ اس کی ایسی توضیح اور رفعِ ابہام کر دیتا ہے کہ مفہوم مکمل طور پر نکھر آتا ہے، اور کسی نئے نظریے یا ماورائی مفروضے کو اس کے مدعا میں شامل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔”لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ
چنانچہ سورہ الرحمن کی اس آیت کو سورہ واقعہ کی آیات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو “حور” کے بارے میں قرآن کا اصل مفہوم روشن ہو جاتا ہے، اور اس سے وابستہ تمام روایتی الجھنیں خود قرآن ہی کے بیان سے ختم ہو جاتی ہیں۔
ارشاد فرمایا:
“إِنَّا أَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَاءً، فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا، عُرُبًا أَتْرَابًا”
(الواقعہ: 35–37)
یعنی: “ہم نے ان عورتوں کو خاص طور پر دوبارہ پیدا کیا، پھر انہیں کنواریاں، محبت کرنے والیاں، اور ہم عمر بنا دیا۔”
یہ آیات دراصل جنت کے اُس خوش نصیب گروہ یعنی “أصحاب الیمین” (دائیں والے) کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، جن کے لیے قرآن جنت کی عظیم نعمتوں کے ساتھ ساتھ اُن کی بیویوں کا خصوصی ذکر کرتا ہے۔ یہاں “ہم نے ان عورتوں کو نئی تخلیق سے پیدا کیا” کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ دنیا کی وہی نیک، صالح اور باوفا خواتین ہیں جو ان مردوں کی ازواج تھیں۔ جنت میں ان عورتوں کو ایک نئی تخلیقی شان، طہارت، شباب اور ہم مزاجی کے ساتھ دوبارہ عطا کیا جائے گا۔
یہی بات آیات کے الفاظ سے پوری وضاحت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے، جنھیں درج ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے:
1. “أَنشَأْنَاهُنَّ” میں “هُنَّ” کی ضمیر ان عورتوں کی طرف لوٹ رہی ہے جو پہلے سے موجود تھیں۔ یہ صاف دلالت کرتا ہے کہ بات کسی نئی نوع کی مخلوق کی نہیں، بلکہ انہی دنیا کی مؤمن اور صالح خواتین کی ہو رہی ہے جنہیں جنت میں نئی تخلیقی حالت میں دوبارہ پیدا کیا جائے گا۔
2. “إِنشَاءً” کا لفظ واضح کر رہا ہے کہ یہ عورتیں خلقِ جدید کے عمل سے گزریں گی — یعنی وہی پرانی ہستیاں ہوں گی، مگر نئے سانچے، نئے حسن، اور نئی طہارت کے ساتھ۔
3. “فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا” کا مفہوم یہ ہے کہ انہیں کنواریاں بنایا جائے گا۔ اگر یہ عورتیں پہلے سے ہی نئی اور علحیدہ مخلوق ہوتیں تو اس صفت کا ذکر بےمعنی ہوتا، کیونکہ نئی مخلوق لازماً کنواری ہی ہوتی ہے۔ اس جملے کا معنویت تب ہی قائم ہوتی ہے جب مراد وہ عورتیں ہوں جو دنیا میں ازدواجی زندگی گزار چکی ہوں اور اب جنت میں انہیں نئی طہارت اور معصومیت کے ساتھ دوبارہ پیدا کیا جا رہا ہو۔
4. “عُرُبًا أَتْرَابًا” کا مطلب ہے کہ وہ عورتیں صرف ظاہری حسن تک محدود نہیں ہوں گی بلکہ محبت کرنے والی، جذباتی طور پر وابستہ اور ہم عمر بھی ہوں گی۔ یہ مکمل رفاقتی کیفیت کی علامت ہے، جسے جنت میں شوہر و بیوی کے تعلق کی انتہائے کمال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
ان تمام نکات کی روشنی میں سورۂ الرحمن کی “لَمْ يَطْمِثْهُنَّ” والی آیت کو دیکھا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وہاں “ہاتھ نہیں لگایا ہو گا” سے مراد یہ کہ خلقِ جدید کے بعد وہ ایسی کامل طہارت میں ہوں گی کہ گویا کسی نے انہیں چھوا ہی نہ ہو — نہ جسمانی طور پر، نہ نفسیاتی یا جذباتی طور پر۔
یہ ہے واضح بیان جو خود خدا کی کتاب نے “حور” کے بارے میں پیش کیا ہے اور جو ہر اضافی افسانوی تصور کی نفی کرتا ہے۔
البتہ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جنت کے معاملات قرآن نے اکثر “تمثیل” اور “تشبیہ” کے اسلوب میں بیان کیے ہیں، اور خود قرآن واضح کرتا ہے کہ ان نعمتوں کا تعارف محض تصور کو قریب لانے کے لیے کیا گیا ہے، نہ کہ ان کی نوعیت کو قطعی طور پر متعین کرنے کے لیے اور نہ ہی ہمیں اس کی کوئی منطقی فہرست ترتیب دینی چاہیے۔
چنانچہ قرآن میں فرمایا گیا:
“وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ”
(فصلت: 31)
“اور تمہارے لیے وہاں وہ سب کچھ ہوگا جو تمہارے دل چاہیں گے، اور وہ بھی جو تم مانگو گے۔”
اسی مفہوم کو سورۂ زخرف میں مزید وضاحت سے یوں بیان فرمایا:
“وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ وَأَنتُمْ فِيهَا خَالِدُونَ”
(الزخرف: 71)
“اور اس میں وہ سب کچھ ہوگا جسے دل چاہیں گے، اور جس سے آنکھیں لذت پائیں گی، اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔”
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کی نعمتیں ہر فرد کی فطری خواہشات اور انفرادی مزاج کے مطابق ہوں گی، اور اگر کسی کے ذہن میں “حور” کا کوئی مخصوص تصور ہو تو اس کی تسکین کے لیے بھی وہاں گنجائش ہو سکتی ہے۔
تاہم یہ بات قطعی ہے کہ قرآن نے “حور” کو کسی متعین، مستقل یا مافوق الفطرت مخلوق کے طور پر پیش نہیں کیا، بلکہ اسے ایک تشبیہی اور صفاتی نعمت کے طور پر بیان کیا ہے — جو جنت میں بندے کی پاکیزہ خواہشات اور روحانی میلانات کی تسکین کے لیے ہوگی، نہ کہ کسی اجنبی مخلوق کی حقیقت کے طور پر۔ قرآن کا اصل زور “حور” کی نوعیت پر نہیں، بلکہ اس حقیقت پر ہے کہ جنت کی نعمتیں ہر فرد کی فطرت، مزاج اور روحانی توازن کے عین مطابق ہوں گی — اور یہی وہ پیمانہ ہے جس پر اہلِ جنت کو ابدی اطمینان عطا کیا جائے لینڈ
(اس موضوع پر قرآن کی تمام آیات، متعلقہ احادیث اور روایتی تعبیرات پر اٹھنے والے اعتراضات کو استاد محترم نے “23 اعتراضات سیریز” میں تفصیل سے واضح کیا ہے۔
اگر کوئی صرف قرآنی بیانیے کی روشنی میں “حور” کا مفہوم سمجھنا چاہے تو ذیل کی قسط ملاحظہ کرے)
قرآن کا بیان:
https://youtu.be/FJ8U2q3vi7E?si=Ngutvmo3NlWONZV9
مکمل سیریز:
https://youtube.com/playlist?list=PLvDnnnkYLWQfeEfG86eK6f1NsdnAk0tK9&si=CfdY3FuJ7koq1KPH
Sponsor Ask Ghamidi