Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums General Discussions نظریہ ارتقا

  • نظریہ ارتقا

    Posted by Azad Khan on April 21, 2025 at 5:35 am

    قرآنِ مجید میں قابیل اور ہابیل کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک بھائی کھیتی باڑی کرتا تھا اور دوسرا بکریاں پالتا تھا۔ جب ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوا اور ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا، تو قاتل اس حد تک لاعلم تھا کہ اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ لاش کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایک کوا بھیجا تاکہ اسے لاش دفن کرنے کا طریقہ سکھایا جائے۔

    اس واقعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ انسانیت کا بالکل ابتدائی دور تھا، جب نہ قانون تھا، نہ تمدن، نہ دفن کا طریقہ معلوم تھا۔

    لیکن دوسری طرف، سائنسی تحقیق اور نظریہ ارتقاء کے مطابق انسان لاکھوں سال کے ارتقائی عمل سے گزر کر مختلف ادوار میں آیا — غاروں میں رہا، آگ دریافت کی، اور وقت کے ساتھ تمدن، زبان، دفن کے طریقے اور سماجی اصول وضع کیے۔

    میرا سوال یہ ہے کہ اگر قرآن کا یہ واقعہ حقیقی تاریخی واقعہ ہے، تو اس سے تو نظریہ ارتقاء کی نفی ہوتی ہے، کیونکہ یہاں ایک ایسا انسان دکھایا گیا ہے جسے دفن کا طریقہ بھی معلوم نہ تھا۔

    جبکہ بعض معاصر اسکالرز، جیسے جاوید احمد غامدی صاحب، نظریہ ارتقاء کو ممکن اور قابل قبول سمجھتے ہیں۔

    تو کیا یہ دونوں باتیں — یعنی قرآن کا یہ واقعہ اور نظریہ ارتقاء — ایک دوسرے سے متصادم ہیں؟

    براہِ کرم اس پر رہنمائی فرمائیں کہ اسے کیسے سمجھا جائے۔

    Dr. Irfan Shahzad replied 1 hour, 38 minutes ago 2 Members · 3 Replies
  • 3 Replies
  • نظریہ ارتقا

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar April 21, 2025 at 5:48 am

    یہ دفن کی نہیں، لاش کو چھپانے کی ترکیب تھی جو کوے سے قابیل نے سیکھی۔ چنانچہ اس سے آدم یا اولاد آدم کے غیر متمدن ہونے کا استدلال درست نہیں۔

    غامدی صاحب نظریہ ارتقا کو درست نہیں سمجھتے۔ وہ انسانوں کی مختلف نسلوں کے درمیان ارتقا کی بات کرتے ہیں جیسے اب بھی اندرون نوع ارتقا ہوتا رہتا ہے۔

    لاکھوں سال پہلے کا انسان حیوانی وجود رکھتا تھا، ایک زمانہ گزرا اور انسانوں کی نسل میں ارتقا ہوتا رہا اور اس کا حیوانی وجود ارتقا پا کر درست ہو گیا تو اس میں انسانی شخصیت ڈال دی گئی۔ جن دو افراد میں یہ شخصیت ڈالی گئی وہ آدم اور حوا تھے۔

    غامدی صاحب کا موقف یہ ہے۔

  • Azad Khan

    Member April 21, 2025 at 10:10 am

    اگر یہ مانا جائے کہ یہ وہ وقت تھا جب انسان شعور و عقل کا حامل ہو چکا تھا — یعنی وہ ایک ارتقائی عمل سے گزر کر “شعوری وجود” (conscious being) بن چکا تھا — تو پھر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسے باشعور انسان کو یہ بنیادی بات بھی معلوم نہ ہو کہ مرنے والے کی لاش کو کیسے چھپایا یا دفنایا جاتا ہے۔

    اگر انسان شعور کی اس سطح پر آ چکا تھا جہاں وہ قتل کر سکتا ہے، قربانی دے سکتا ہے، تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ لاش کے انجام کے بارے میں بالکل لاعلم ہو؟ مزید یہ کہ اگر وہ لاعلم تھا، تو کیا یہ شعور کی کمی کی علامت نہیں؟ اور اگر شعور کی کمی ہے، تو پھر ارتقائی عمل سے مکمل انسان بننے کا مفروضہ کیسے درست ٹھہرتا ہے؟

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar April 22, 2025 at 12:15 am

    شاید بات واضح نہ ہو سکی۔

    قابیل لاش کو وہیں چھوڑے جا رہا تھا، کوے کی حرکت دیکھ کر اسے خیال آیا کہ لاش بھی چھپا دی جائے۔ اس بات پر اسے ندامت ہوئی کہ اتنی سی بات میرے ذہن میں کیوں نہیں آئی۔ اگر یہ بات اسے پہلے بار معلوم ہوتی تو اسے نادم ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔

    ایسے ہی جیسے کوئی چور چوری کرنے آئے اور اپنی کوئی نشانی چھوڑے جا رہا ہو اور اس کا ساتھی اسے یاد دلائے کہ یہ کیا حماقت کر رہے ہو۔

You must be logged in to reply.
Login | Register