Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Why Only Two Contemporaries Mentioned In Quran By Name

Tagged: 

  • Why Only Two Contemporaries Mentioned In Quran By Name

    Posted by Abdul on July 10, 2025 at 2:53 am

    Quran apne mukhatbeen me se kisi ka name nhi leete jub bhi koi baat karta he us me ju mukhatib he unki tarf ishara kar deeta he lekin keya aese Khas wajha thi ki Abu lahab or Hazrat Zayd ka naam leke mention keya?

    Abdul replied 1 month ago 3 Members · 7 Replies
  • 7 Replies
  • Why Only Two Contemporaries Mentioned In Quran By Name

    Abdul updated 1 month ago 3 Members · 7 Replies
  • Raja Haseeb

    Member July 10, 2025 at 10:53 am

    Quran Ghaira Imbiyah mn postive personalities mn Hazrat Maryam aur Hazrat Luqman ka nam ha.

    Baqi monadiyaan mn

    Firyon

    Qaron

    Haman

    Taloot

    Samari

    Azar

  • Abdul

    Member July 10, 2025 at 12:53 pm

    Quran ke ju mujada mukhatebeen ju he unki baat ker raha hoon

  • Abdul

    Member July 11, 2025 at 9:31 pm
  • Umer

    Moderator July 13, 2025 at 10:31 pm

    Regarding Abu Lahab Imam Amin Ahsan Islahi writes:

    ایک سوال اور اس کا جواب: یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پورے قرآن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں میں سے کسی کا ذکر بھی اس کے نام کی تصریح کے ساتھ نہیں ہوا پھر ابولہب ہی کی کیا خصوصیت تھی کہ اس کا ذکر اس کے نام سے ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خاص اہتمام کے ساتھ اس کا ذکر کرنے کی یوں تو کئی وجہیں ہو سکتی ہیں لیکن دو باتیں خاص اہمیت رکھتی ہیں جن کا ذکر ہم یہاں کریں گے۔ ایک یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابولہب کی عداوت کی نوعیت دوسرے مخالفوں کی عداوتوں سے بہت مختلف تھی۔ قریش کے دوسرے لیڈروں کو آپ سے جو اختلاف تھا اس کی بڑی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ کی دعوت کو دین آبائی کے خلاف سمجھتے تھے، یہ وجہ نہیں تھی کہ وہ اس میں اپنے ذاتی اغراض ومفادات کے لئے کوئی خطرہ محسوس کرتے ہوں۔ آپ جن مکارم اخلاق کی دعوت دیتے تھے ان کی عزت ان کے دلوں میں بھی تھی۔ آپ یتیموں اور مسکینوں اور غلاموں کے ساتھ جس حسن اخلاق پر لوگوں کو ابھارتے تھے قریش کے بہت سے شریفوں کے اندر اس کے لیے بھی بڑا احترام تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ سارے کام ہوں۔ اور اس معاملہ میں ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسن ظن بھی تھا اس لیے کہ وہ آپ کو تمام اعلی اوصاف سے عملاً متصف پاتے تھے۔ ان کو غصہ تھا تو اس بات پر تھا کہ اپنی دعوت میں آپ ان کے بتوں کی تحقیر کرتے ہیں۔ سورۂ کافرون کی تفسیر میں ہم ذکر کر چکے ہیں کہ وہ اس بات پر آمادہ تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بتوں کے معاملے میں اپنا لب ولہجہ کچھ نرم کر دیں تو وہ بھی آپ کی دعوت کے معاملہ میں اپنی روش تبدیل کر دیں گے۔

    ابولہب کا ذکر نام کے ساتھ کیے جانے کے وجوہ: اس کے برعکس ابولہب کی مخالفت تمام تر اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے تھی۔ وہ بیت اللہ کے بیت المال کا نگران تھا اور اپنے زمانے میں اس نے اس طرح اس پر قبضہ کر رکھا تھا کہ اس کا بڑا حصہ یتیموں، مسکینوں اور حاجیوں کے بجائے اس کے اپنے جیب میں جاتا جس کی بدولت وہ اپنے زمانے میں قارون بن گیا۔ اس نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکارم اخلاق کی دعوت اور بیت اللہ کے مقصد تعمیر کی آیتیں سنیں؂۱ تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے احتساب کا وقت قریب آ رہا ہے۔ اگر جلد سے جلد آپ کی دعوت کو دبانے کی اس نے تدبیر نہ کی تو ان تمام مفادات سے اسے دست بردار ہونا پڑے گا جن سے وہ اس وقت بے روک ٹوک بہرہ مند ہو رہا ہے۔ چنانچہ وہ کمر باندھ کے آپ کی دعوت کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے کردار کی تصویر سورۂ ھمزہ اور بعض دوسری سورتوں میں کھینچی گئی ہے۔ جن لوگوں کی مخالفت یا موافقت ذاتی اغراض سے بالا تر کسی مقصد کے لیے ہوتی ہے، اگرچہ وہ مقصد غلط ہی ہو، ان کے اندر فی الجملہ شرافت ہوتی ہے برعکس اس کے جس کی مخالفت و موافقت محض اس کی ذات کے مفاد کے اردگرد گھومتی ہے وہ شرافت سے بالکل تہی ہوتی ہے۔ یہی رمز ہے کہ ابوجہل اور ابوسفیان کی مخالفت اور ابو لہب کے انداز مخالفت میں نمایاں فرق نظر آتا ہے اور یہی فرق ہے جو سبب ہوا اس بات کا کہ اس عدو کا ذکر خاص طور پر نام لے کر کیا جائے تاکہ لوگوں پر یہ حقیقت واضح ہو کہ کس کردار کے لوگ حق کے اصلی دشمن ہوتے ہیں اور اللہ تعالی ان کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے حضرات انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا مزاج ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں وصل اور فصل کی بنیاد صرف اللہ کا دین ہے۔ وہ لوگ نبی کے ساتھی اور محبوب و محب بن جاتے ہیں جو اللہ کے دین کو اختیار کر لیتے ہیں اگرچہ وہ کتنے ہی دور کے ہوں اور وہ لوگ کاٹ پھینکے جاتے ہیں جو اللہ کے دین کے مخالف ہوتے ہیں، اگرچہ باعتبار نسب و رشتہ وہ نبی کے کتنے ہی قریبی ہوں۔ اسی حقیقت کے اظہار کے لیے قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کے واقعات نہایت خاص اہتمام کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ اسی مقصد سے یہاں ابولہب کا ذکر خاص اہتمام کے ساتھ ہوا ہے تاکہ یہ حقیقت واضح کر دی جائے کہ اللہ تعالی کے نزدیک خاندان اور نسب کوئی چیز نہیں ہے۔ ایک گڈریا رسول کا محب اور محبوب بن سکتا ہے اگر وہ اس کی دعوت قبول کر لیتا ہے اور اگر اس کا چچا بھی اس کی دعوت کو رد کر دے تو اس کا تعلق بھی اللہ اور رسول سے یک قلم ختم ہو جاتا ہے۔ سورۂ کافرون میں اہل کفر سے براء ت کا جو اعلان ہے یہ گویا اس کی عملی شہادت ہے۔

  • Abdul

    Member July 13, 2025 at 10:38 pm

    Or Hazrat Zayd?

  • Umer

    Moderator July 13, 2025 at 10:38 pm

    Mentioning of Zaid bin Haritha (rta) in Quran 33:37 seems to be at a very critical juncture, where old tradition was about to be abrogated and the flow with which verses were going. It appears that both these factors could have contributed to mentioning of Zaid (rta) by name. I.e. No ambiguity should have been left because of sensitivity of the issue at hand and the flow of the verses was complemented by mentioning of the name.

  • Abdul

    Member July 13, 2025 at 10:40 pm

    Shukriya janaab

You must be logged in to reply.
Login | Register