-
تکفیر پر اہم سوال
غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے، ہم اسے کافر نہیں کہہ سکتے۔ ان کے نزدیک دعوائے اسلام ہی اس شخص کو قانونی طور پر مسلمان ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ عنداللّٰہ اس کے مسلمان ہونے کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں ہو سکتی۔
اس کی دلیل وہ حدیث جبریل سے پکڑتے ہیں، جس میں اسلام کو بیان کیا گیا ہے۔
لیکن اس اصول کی روشنی میں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے:
اگر کوئی شخص زبان سے اسلام کا دعویٰ کرے، مگر نہ نماز پڑھتا ہو، نہ روزہ رکھتا ہو، نہ زکوٰۃ دیتا ہو، اور نہ ہی دیگر ارکانِ اسلام پر عمل پیرا ہو، تو کیا وہ صرف دعوائے مسلمانی کی بنیاد پر مسلمان مانا جائے گا؟
جبکہ قرآن مجید میں صراحت ہے:
> فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
“پھر اگر وہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، تو ان کا راستہ چھوڑ دو، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔”
(سورہ توبہ، آیت 5)
اس آیت سے بظاہر یہ مفہوم نکلتا ہے کہ محض دعوائے اسلام کافی نہیں، جب تک نماز اور زکوٰۃ جیسے ظاہری اعمال بھی ساتھ نہ ہوں۔
اسی طرح حدیثِ جبریل میں بھی اسلام کو پانچ ارکان پر قائم بتایا گیا ہے، جن میں عملی عبادات شامل ہیں۔
تو کیا یہ سب دینی نصوص اس بات پر دلیل نہیں کہ ظاہری اعمال، جیسے نماز اور زکوٰۃ، اسلامی شناخت کے لازمی اجزاء ہیں؟
اور اگر کوئی شخص ان اعمال سے جان بوجھ کر پہلوتہی کرے تو کیا صرف دعوائے مسلمانی کافی ہوگا؟
Sponsor Ask Ghamidi
Sorry, there were no replies found.