Forums › Forums › General Discussions › Ghamidi Sahab And Prohibition Of Alcohol
-
Ghamidi Sahab And Prohibition Of Alcohol
Posted by Muhammad Abdullah Awan on July 26, 2025 at 5:50 pmغامدی صاحب کو ایک جگہ کہتے ہوئے سنا کہ جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو، اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔ اور شاید ان کا استدلال ایک حدیث پر ہے، اور یہ سدِّ ذریعہ پر مبنی ہے۔ اگر یہ محض سدِّ ذریعہ ہے تو پھر اصلاً تو زیادہ نشہ آور مقدار ہی حرام ہوگی، اس کے علاوہ تھوڑی مقدار جائز ہونی چاہیے
Dr. Irfan Shahzad replied 3 days, 14 hours ago 2 Members · 19 Replies -
19 Replies
-
Ghamidi Sahab And Prohibition Of Alcohol
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar July 27, 2025 at 3:11 amسد ذریعہ کی حرمت بھی حرمت ہی ہوتی ہے۔ ورنہ سد ذریعہ کی حرمت بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے ٹریفک سگنلز کی پابندی حادثات سے بچنے کے لیے ہے، تو کہا جائے کہ اصل مسئلہ کو حادثے کا ہے، اس لیے ٹریفک سگنلز توڑنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
-
Muhammad Abdullah Awan
Member July 27, 2025 at 1:53 pmغامدی صاحب اس کے بالکل اُلٹ کہتے ہیں: “حرمت کبھی سدِّ ذرِیعہ کے ذریعے استعمال نہیں ہوتی
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar July 30, 2025 at 2:25 amآپ کی بات درست ہے کہ
سد ذریعہ کے ممنوعات اصلا حرام نھیں ہوتے۔ اس لیے اگر کوئی ان کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے قانونی لحاظ سے حرمت کا شکار ہونا نہیں کہیں گے۔ تاہم سد ذرائع کے اقدامات میں کم اور زیادہ شدت کا فرق ہے۔ جو اقدامات گناہ کے بالکل قریب لے جائیں ان سے زیادہ شدت سے روکا گیا ہے۔
جیسے اللہ کا ارشاد ہے کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ۔
چنانچہ سد ذریعہ کے ممنوعات حلال نہیں ہوتے اگرچہ اصلا حرام نھیں ہوتے۔
-
Muhammad Abdullah Awan
Member July 31, 2025 at 1:14 amغامدی صاحب کے نزدیک سدِّ ذرائع کہ وہ احکامات جو خدا خود دے، ان کا درجہ عام سدِّ ذرائع(؟ یعنی کوئی سدِّ ذریعہ جو فقیہ یا رسول طے کرے) سے الگ ہے؟۔ ایک جگہ انہوں نے نکاح سے پہلے بھی زنا کی حرمت اصلًا خدا کا ممنوع کیا ہوا سدِّ ذریعہ کہا ہے۔ تو کیا خدا کے بتائے ہوئے سدِّ ذرائع قانونی طور پر ویسے ہی حرام ہیں جیسے باقی پانچ کیٹیگریز؟
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar August 2, 2025 at 1:05 amخدا نے سد ذریعہ کی تحت جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اس کی حرمت ایک فقیہ کے سد زریعہ کی تجویز کردہ حرمت کے مقابلے میں صریح بھی ہے اور شدید تھی۔
خدا نے جن چیزوں کو سد ذریعہ کے طور پر حرام کیا ہے ان میں بھی درجات کا فرق ہے۔ کچھ کو صرح حرمت میں شمار کیا ہے جیسے زنا اور کچھ کو مکروہات کے دائرے میں جیسے زنا کے قریب جانا اور کچھ کو آداب کے دائرے میں جیسے مردوں اور عورتوں کے اختلاط کے آداب ۔
-
Muhammad Abdullah Awan
Member August 3, 2025 at 12:14 pmغامدی صاحب زنا کو حق تلفی مانتے ہیں۔ نکاح سے پہلے جنسی تعلق حق تلفی نہیں لگتی تو انہوں نے اسکو سدِ ذریعہ کہہ دیا۔ غامدی صاحب کی تعبیر داخلی طور پر ہم آہنگ نظام ہے اس لیے وہ کسی چیز کو بھی نظام کے باہر متفرق، بے ترتیب نہیں چھوڑ سکتے۔ لیکن کبھی کبھی وہ متفرقات کو اصل نظام کے اندر رکھنے کے بجائے، نئے حکم کے لیے نظام میں نئی جہتیں بنا دیتے ہیں۔جیسے شادی کے بعد زنا کو اصلًا حرام بِوجہ حق تلفی اور شادی کے پہلے کا زنا بِوجہ سدِ ذریعہ، مگر نتیجتاً دونوں حرام ہیں۔
مزید یہ کہ غامدی صاحب کو معلوم ہے کہ دونوں کی حرمت قطعی ہے۔ حق تلفی اور سدِ ذریعہ صرف حکم کی حکمت ہے، یہاں انہوں نے حکمت پر زیادہ زور دیا ہے، اور حکمت کی تقسیم پر اصل کیٹیگری جو کہ سدِ ذریعہ ہے، اُسی میں ایک نئی جہت کا اضافہ کر دیا ہے (کہ ایک جگہ جا کر نتیجے کے اعتبار سے سدِ ذریعہ کی حرمت اور ذریعہ بذاتِ خود دونوں برابر حرام ہیں)۔۔ اس سے حرام اور سدِ ذریعہ دونوں کیٹیگریز میں تھوڑی سی کمزوری پیدا ہو گئی ہے۔
ایسی نئی جہتوں کے اضافے سے ان دونوں کیٹیگریز کے درمیان امتیاز کمزور ہو سکتا ہے، جس سے اس کے نظام میں کچھ ابہام یا عدم یکسانیت پیدا ہو سکتی ہے۔
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar August 4, 2025 at 12:46 amجیسا کہ میں نے عرض کیا خدا کا ممنوع بھی ہر جگہ ایک درجے کا نہیں ہوتا، کوئی حرمت کے درجے کی ممانعت ہے تو کہیں مکروہ کے درجے کی۔ اسی طرح خدا کا حرام کردہ بھی سب ایک درجے کا نہیں ہے۔ درجات کا یہ فرق خود حکم کی نوعیت میں موجود ہوتا ہے۔
-
Muhammad Abdullah Awan
Member August 4, 2025 at 4:15 amجی وہ آپ نے ٹھیک ٹھیک سمجھا دیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ سدّ ذریعہ کی کیٹیگری ہی اس لیے غامدی صاحب نے بنائی ہوگی کہ اصل حرمت کو اور اُس تک پہنچنے کے راستوں کے درمیان فرق قائم کر دیا جائے۔ مگر جب آپ یہ کہتے ہیں کہ سدّ ذریعہ کی شدت کے لحاظ سے اقسام ہیں اور شدید ترین سطح پر سدّ ذریعہ کی ممانعت اور اصل حرمت دونوں برابر ہو جاتی ہیں تو یہاں آپ نے اصل میں جو توازن دو چیزوں میں قائم کیا تھا(یعنی: حرام اور سدّ ذریعہ) وہ ختم ہو گیا۔
مثال کے طور پر اصل حرمت زنا ہے اور غضِ بصر سدّ ذریعہ، تو یہ سمجھ آتی ہے کہ دونوں میں فرق ہے؛ مگر جب آپ یہ کہہ دیں کہ اصل حرمت تو شادی کے بعد زنا ہے لیکن شادی کے پہلے کا زنا سدّ ذریعہ ہے، مگر نتیجے کے اعتبار سے دونوں حرام ہیں، تو آپ نے صرف نام کا فرق رکھا ہے اور نتیجتاً کیٹیگریز میں توازن ختم کر دیا ہے۔
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar August 4, 2025 at 6:20 amنتیجے میں یکساں ہونے سے نوعیت میں یکساں ہونا لازم نہیں آتا۔ مثلا اللہ نے شرک کو بھی حرام کہا ہے اور بتوں کے نام پر دیا کھانا کھانا بھی حرام کہا ہے۔ دونوں کی نوعیت میں فرق ہے مگر دونون نتیجے کے اعتبار سے حرام ہیں۔
-
Muhammad Abdullah Awan
Member August 4, 2025 at 7:03 amاصل مسئلہ یہ ہے کہ دونوں اصناف (سدِ ذرائع اور حرمت) میں فرق قائم نہیں رہ رہا ایسے۔ آپ کی مثال میں دونوں چیزیں ایک ہی علت پر ایک ہی صنف میں ہیں، جبکہ ہم جو بات کر رہے ہیں، وہاں ایسا نہیں۔
ویسے آپ یہ ویڈیو دوبارہ دیکھ لیں ۔ احتمال موجود ہے کہ غامدی صاحب نے اصطلاحات کو مکس کر دیا ہو۔ اگر میں غلط نہیں ہوں, سدِ ذرائع ایک صنف ہے، ان کے نظام میں، لیکن انہوں نے یہاں اس صنف کو حکمت کے طور پر بیان کر دیا ہے۔ ۔ جیسے ان کے نزدیک “حرمت” اور “سدّ ذرائع” دو صنفیں ہیں جیسے “فرض” اور “مستحب” الگ صنفیں ہیں۔ یہاں انہوں نے غالباً نکاح سے پہلے زنا کو “حرمت” کی صنف میں رکھ کر اس کی حکمت کو ایک اور صنف (سدّ ذرائع) کی صورت میں بیان کر دی ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے آپ کہیں کہ فجر کی دو رکعتیں فرض ہیں اور ان کی حکمت یہ ہے کہ وہ مستحب ہیں۔
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar August 6, 2025 at 1:53 amشرک اور زنا کی مثال ایک ہی طرح کی علت اور ایک ہی نوعیت کی ہیں۔
زنا کی حرمت خاندان کے ادارے کے تحفظ کے لیے ہے ورنہ خدا کو اس سے کیا دل چسپی ہے جنسی اظہار صرف بیوی اور شوہر کے درمیان ہی رہے۔ جیسے انسان کو بھوک لگتی ہے اور وہ مختلف جگہوں سے کھانا کھا سکتا ہے ایسے ہی جنس کی بھوک بھی وہ جہاں چاہے بجھا سکتا تھا۔ وہ کیا علت ہے جس کی وجہ سے نکاح کے بعد جنسی عمل جائز اور نکاح سے پہلے ناجائز بن جاتا ہے؟ حالانکہ عمل ایک ہی ہے اور رضامندی سے ہے۔
اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ خدا خاندان کے دارے کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔
اگر یہ علت اگر مان لی جائے تو نکاح سے پہلے زنا کی حرمت کی وجہ صرف سد ذریعہ ہی رہ جاتی ہے کہ یہ اس لیے حرام ہے کہ عادت نہ پڑے اور انسان شادی کے بعد خادان کے ادارے کو نقصان نہ پہنچا دے۔
شرک کے معاملے میں بھی علت اسی طرح کار فرما ہے۔ خدا نہیں چاہتا کہ انسان کسی اور کو خدا مانے ۔چھوٹا خدا مانے یا بڑا خدا مانے۔ یا خدا سے مخصوص کسی عمل میں کسی اور کو شریک کرے۔
بتوں کے نام پر کھانا کوئی اور دے وہ بھی مسلمان کے لیے کھانا جائز نہیں حالانکہ کہ کھانا فی نفسہ جائز ہے، مسلمان نے اسے بتوں پر پیش نہیں کیا بلکہ کسی اور نے کیا ہے۔ کھانے میں کوئی تبدیلی بھی اس عمل سے نہیں آتی۔ اس کے باوجود کھانا جائز نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ شرک کی قربت بھی منع ہے۔ جیسے زنا کے قریب نہ جانے کا حکم ہے اسی طرح شرک کے قریب نہ جانے کا حکم ہے۔
بتوں کے نام کے کھانے کی ممانعت سد ذریعہ کے اصول پر ہے۔
یوں دونوں مثالوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اصل اور سد زریعہ دونوں کی ممانعت خدا نے کی۔ ان کی نوعیت مختلف ہے مگر نتیجہ دونوں کا حرمت ہے۔ -
Muhammad Abdullah Awan
Member August 6, 2025 at 3:23 amمیں آپ کو اپنا سوال سمجھا نہیں پارہا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا سدِ ذریعہ ایک صنف ہے، حرمت کے نیچے کی (جیسے واجب فرض کے نیچے کی صنف ہے) اگر جواب اثبات میں ہے تو یہ بات واضح ہوگئی کہ سدِ ذریعہ کی شدت، جیسے جیسے انسان اصل حرمت کی طرف بڑھے، بڑھتی جاتی ہے۔ مگر کبھی بھی دو مختلف اصناف ایک نہیں بنتیں، ورنہ ان میں فرق کیا ہے پھر؟ جیسے عبادت میں بنیادی اصناف اگر ہم فرض و نفل کو بنائیں تو مختلف نفلوں کا اجر مختلف ہوگا مگر نفل کبھی فرض نہیں بنے گا۔ یہاں سدِ ذریعہ حرام کیوں بن رہا ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ اصل حرمت تو نکاح کے بعد والا زنا ہوتا، اس سے پہلے والا شدید ممانعت ہوتا مگر حرمت کے ساتھ نہیں سدِ ذریعہ کے ساتھ۔ اور یہ بات غامدی صاحب خود کہہ چکے ہیں کہ سدِ ذریعہ اور حرمت الگ ہوتی ہیں اور عقلاً بھی یہی ہونا چاہیے۔
مجھے لگ رہا ہے کہ غامدی صاحب کبھی سدِ ذریعہ کو “حکمت” کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور کبھی “صنف” کے طور پر۔ جو مثال آپ نے دی وہاں پر ستھان پر کھانا کھانا “صنف” کے حوالے سے حرام ہی ہے مگر آپ اُسکی “حکمت” سدِ ذریعہ بتا رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم غزِ بصَر کے احکام دیکھیں تو وہاں ایسا لگتا ہے کہ وہ احکام ‘حرام’ سے نیچے کی ایک “صنف” میں ہیں، جس “صنف” کا نام سدِ ذریعہ ہے؛ جبکہ “حکمت” اصل حرام کے قریب جانے سے روکنا ہے۔
لیکن کیوں کہ قرآن سے ہی ثابت ہے کہ شادی کے پہلے کا زنا “حرام” ہے، جیسے “ستھان” کا کھانا، تو دونوں کو غامدی صاحب “صنف” کے اعتبار سے “حرام” میں ہی رکھ رہے ہوں گے۔ مگر شادی کے پہلے کی زنا کی “حکمت” وہ “سدِ ذریعہ” کہہ رہے ہیں۔ لیکن دوسری جگہوں پر وہ “سدِ ذریعہ” کو بطور “صنف“ استعمال کرتے نظر آتے ہیں، شاید اسی لیے غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar August 8, 2025 at 1:46 amسد ذریعہ کی ممانعت اصل نہیں ہوتی، بلکہ اصل حرمت کے تابع ہوتی ہے۔ اس بنا پر قبل از نکاح زنا کی حرمت تابع ہے اصل حرمت زنا کے جو نکاح کے بعد ہوتا ہے۔
دونوں اس لیے حرام ہیں کہ انھیں خدا نے حرام کیا ہے۔ ایسے ہی جیسے بتوں کی عبادت اور ان کے نام پر کھانا کھانا دونوں کو خدا نے حرام کیا ہے۔ ایک اصل حرمت ہے اور دوسری سد ذریعہ کی۔
آپ کا مخمصہ یہ ہے کہ سد ذریعہ کی حرمت کو آپ حرمت سے کم دیکھ رہے ہیں۔ مسئلہ یوں نہیں۔ سد ذریعہ کے بعض ذرائع غیر حرام بھی ہو سکتے ہیں اور حرام بھی۔ یہ جب حرام ہوں گے تو ان کی حرمت تابع ہوگی اصل حرمت کے۔ کسی وجہ سے اصل حرمت متاثر نہ ہو تو سد ذریعہ کی حرمت ختم ہو جاتی۔
سد ذریعہ الگ صنف ہے اور اس کی منع ہونے کی وجہ سد ذریعہ کی حکمت ہے۔ ان دونوں باتوں میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایک ہو تو دوسری نہیں ہو سکتی۔
-
Muhammad Abdullah Awan
Member August 8, 2025 at 2:06 amآپ کا مخمصہ یہ ہے کہ سد ذریعہ کی حرمت کو آپ حرمت سے کم دیکھ رہے ہیں
یہ چیز سیدنا غامدی کی تقریر سے ہی اخذ کی ہے اور وہ يہ بات کئی دفعہ کہ چکے ھیں – آپ نے بھی گفتگو کی شروعات میں یہی کہا تھا ۔ ایک ویڈیو جس کا لینک اوپر ہے وہاں انہوں نے ایگزیکٹ یہی کہا تھا لیکن اب وہ ویڈیو removed ہوگئی ہے۔
آپ مجھے اُنکی ایک تحریر یہ کلپ دیکھا دیں جہاں وہ اسکے برعکس کہ رہے ہیں، اُنکی سد ذریعہ پر تمام گفتگو کا زور اسی پر ہے کہ سد ذریعہ اصل حرم تک جانے والے راستوں کو روکنا ہے، خود اصل حرام نہیں
ضمن میں ایسا مؤقف روایتی تعبیر کو تقویت دیتا ہے جہاں نکاح سے پہلے اور بعد کہ زنا پر سزا میں تفریق ہے
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar August 8, 2025 at 2:11 amاس کے بعد میں نے پوری گفتگو کی ہے۔ وہ بھی دیکھیے۔ اور بتایا کہ سد ذریعہ کی حرمت اصل حرمت کے تابع ہوتی ہے اور اصل حرمت کے ختم ہونے سے یہ بھی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ دو الگ حرمتیں نہیں کہ ایک ختم ہو تو دوسری قائم رہ سکے۔
-
Muhammad Abdullah Awan
Member August 8, 2025 at 2:22 amآپ کو سد ذریعہ کو حرمت کہ رہے ہیں، غامدی صاحب ایسا کہتے ہی نہیں۔ وہ اسکو حرمت میں شمار ہی نہیں کرتے۔ حرمتیں اور سد ذرائع الگ ہیں۔
یہ ویڈیو دیکھیں جسمیں غامدی صاحب کہ رہے ہیں کہ یہ اصل حرمت نہیں، اور اسکو خلاف جانا صغیرہ گناہ ہے۔ آپ زنا قبل نکاح کو صغیرہ گناہ کہیں گے؟
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar August 12, 2025 at 1:06 amاس وڈیو میں پوری بات نہیں ہے۔ سد ذریعہ کے درجات ہیں۔ کچھ کی ممانعت شدید ہے اور کچھ نرم۔
کچھ کی ممانعت زائل ہو جاتی ہے اور کچھ کی زائل نہیں ہوتی۔
جنسی عمل قبل از نکاح کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی اگر انسان خاندان کا ادارہ قائم نہ کیے ہوتا اور جانوروں کی طرح زندگی گزارتا۔
جب وہ خاندان بناتا ہے تو اب ضروری ہوا کہ اسے قاعدہ میں لایا جائے۔ ایسے ہی ٹریفک قوانین اس لیے بنائے گئے کہ حادثہ نہ ہو۔ کہیں قوانین کی چھوٹی موٹی خلاف ورزی کو نظر انداز بھی کر دیا جاتا ہے اور کہیں اس پر سخت سزا دی جاتی ہے۔
یہی معاملہ قبل از نکاح جنسی عمل کا ہے۔ اس لیے یہ سد ذریعہ ہی کے اصول پر ممنوع ہے، اس کی حرمت اصل حرمت کے تابع ہے۔ مگر یہ بھی حرام ہی ہے۔ اور اس کی خلاف ورزی گناہ صغیرہ میں نہیں آتی۔
-
Muhammad Abdullah Awan
Member August 12, 2025 at 8:53 amIt’s not in the Category of sad e zariyah. I asked from Ghamidi sahab directly. It is haram because God said so, sad e zariyah is its hikmat NOT CATEGORY. Categories of sad e zariyah and Haram are distinct.
https://youtu.be/DkAW0HxwnHg?si=mQBuZXudG5TxZ7oG
From 5:45
Jazak’allah for your guidance
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar August 13, 2025 at 12:49 amSadd e Zarya is a category, and their being Sadd e Zarya is their reality, and God prohibited it.
Sponsor Ask Ghamidi