Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Can Allah Forgive Violations Of Haqooq-ul-ibad?

  • Can Allah Forgive Violations Of Haqooq-ul-ibad?

    Posted by Muhammad Ikrama on August 15, 2025 at 8:39 am

    سورہ الفرقان کی آیات میں ہے:

    (سورۃ الفرقان – آیت نمبر 68-70)

    اور (وہ ہیں) جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ـــ یہ گناہ جو شخص بھی کرے گا، اِن کا نتیجہ بھگتے گا۔ قیامت کے دن اُس کا عذاب بڑھتا ہی جائے گا اور وہ اُس میں ذلیل ہو کر ہمیشہ رہے گا۔ مگر یہ کہ جس نے توبہ کر لی اور ایمان لایا اور اچھے عمل کیے تو اِسی طرح کے لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے


    یہاں اس بات کا شبہ پیدا ہوا رہا ہے کہ

    قتل نا حق بھی توبہ سے معاف ہو سکتا ہے

    لیکن قتل تو حقوق العباد سے ہے۔

    وضاحت فرما دیں

    Dr. Irfan Shahzad replied 2 weeks, 4 days ago 4 Members · 7 Replies
  • 7 Replies
  • Can Allah Forgive Violations Of Haqooq-ul-ibad?

    Dr. Irfan Shahzad updated 2 weeks, 4 days ago 4 Members · 7 Replies
  • Umer

    Moderator August 16, 2025 at 3:43 pm
  • Muhammad Ikrama

    Member August 17, 2025 at 3:33 am

    شکریہ محترم! لیکن متعلقہ آیت ابھی بھی واضح نہیں ہوئی!

    غامدی صاحب فرما رہے ہیں کہ اللّٰہ گناہ معاف کرتا ہے لیکن حقوق العباد کی معافی انسان کے پاس ہے جس کے خلاف اقدام ہوا ہے! قیامت والے دن اللہ تعالٰیٰ کچھ لے دے کر معاملہ کروا دیں گے!

    لیکن آیت میں ہے کہ قتل نا حق بھی توبہ سے نہ صرف معاف ہوتا ہے بلکہ گناہ نیکی سے تبدیل کر دیے جاتے ہیں!

    سورہ فرقان کی متعلقہ آیت کی روشنی میں جواب دیں۔

    شکریہ

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar August 17, 2025 at 5:08 am

    توبہ کے مفہوم میں یہ شامل ہے کہ نہ صرف معافی مانگی جائے بلکہ تلافی کی جائے۔ تلافی دنیا میں ممکن ہوگی تو وہاں کی جائے گی اور اگر آخرت میں ممکن ہوگی تو وہاں کی جائے گی۔

  • Muhammad Ahmad

    Member August 17, 2025 at 4:53 pm

    لیکن سورۃ النساء کی آیت نمبر 93 بظاہر متعارض لگ رہی ہے اس آیت سے، جس میں کہا گیا ہے کہ قتلِ عمد کے مرتکب کی سزا ‘خلود فی النار’ ہے۔

    اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا:

    ” اُس شخص کی سزا، البتہ جہنم ہے جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے، وہ اُس میں ہمیشہ رہے گا، اُس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اُس کے لیے اُس نے ایک بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “

    ( سورۃ النساء – آیت نمبر 93 )

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar August 18, 2025 at 6:23 am

    ہر سزا میں یہی اسلوب ہوتا ہے۔ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے، مگر ہر چوری اور ہر چور کو ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی جاتی۔ زانی کی سزا سو کوڑے ہے، مگر پھر خدا ہی بتاتا ہے کہ لونڈی زنا کرے تو اس کی سزا نصف ہے۔ یہ اس لیے کوئی مطلق مکمل طور پر مطلق نہیں ہوتا اس میں استثنا موجود ہوتا ہے۔ عمومی بیان ہر ہر صورت حال پر وارد نہیں ہوتا۔ جیسے استاد کہے کہ کل جو کلاس میں نہیں آئے گا اسے 100 روپے جرمانہ ہوگا۔ لیکن کسی شاگرد کو حادثہ پیش آ جائے تو عقل تقاضا کرتی ہے اسے معافی ملنی چاہیے اور جرمانے کی سزا بلا عذر غیر حاضری تک محدود ہونی چاہیے۔ یہ بات الفاظ میں موجود نہیں مگر عقلی طور پر مضمر ہے۔

    قاتل کی سزا ابدی جہنم ہے لیکن وہ سچے دل سے توبہ چاہے تو اسے تلافی کے بعد معافی مل سکتی ہے۔ قرآن مجید میں بعض مسیحیوں کے شرک کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ انھیں بھی معافی مل جائے گی کیونکہ وہ سچے دل سے خدا کو تین روپ میں مان رہے تھے کہ یہی خدا کا حکم ہے۔ دیکھیے سورہ مائدہ کی آیت 116 تا آخر۔

    خلاصہ یہ ہے کہ انتہائی سزا اسے ہی ملتی ہے جو کسی رعایت کا مستحق نہ ہو۔ اور قانون کا بیان اسی سزا کو بیان کرتا ہے۔ استثنا ہر قانون میں موجود ہوتا ہے۔

  • Muhammad Ahmad

    Member August 19, 2025 at 8:04 am

    عمدہ !

    اچھا ایک اور اشکال بھی رفع کر دیں۔ سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 70 میں کہا گیا ہے:

    ” إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا … الخ ”

    یعنی ندامت کے ساتھ عملِ صالح کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ لیکن قتلِ عمد کی سزا تو قصاص ہے اور اصولی طور پر اگر قاتل اللہ سے معافی مانگ بھی لے تو اس نے بطور قصاص خود کو پیش کرنا ہے، لہٰذا وہاں عملِ صالح کی گنجایش باقی نہیں رہتی کیونکہ وہ زندہ ہی نہیں رہے گا تو عملِ صالح کس طرح کرے گا ؟

    اگر آپ یوں کہیں کہ مقتول کے وارثین کے معاف کرنے یا کمزور عدالتی نظام کی وجہ سے قصاص نہ لیا جاسکے تو عملِ صالح کی گنجائش نکل سکتی ہے اور اس آیت میں ایسی ہی situations سے متعلق کہا گیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ استثنائی situations ہیں، جبکہ آیت میں اصولی بات بیان کی جارہی ہے۔

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar August 20, 2025 at 2:40 am

    قصاص کے لیے خود کو پیش کرنا ضروری نہیں۔ وارثین کا اسے قتل کرنا سماج کی بہبود کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ اگر وہ پکڑا جائے تو اسے مارنا قانون کا تقاضا ہے۔ قاتل کو اس کے بغیر بھی معافی ملنے کا امکان ختم نہیں ہوتا۔ اگر وہ سچے دل سے نادم ہے اور بساط بھر عمل صالح کر کے خود کو معافی کا مستحق بنا لیتا ہے۔

You must be logged in to reply.
Login | Register