-
یہ نظم قرآن پر ایک صاحب نے تنقید کی ہے آپ سے جواب مطلوب ہے
”مجھے خیال ہوتا ہے“ | ’قطعی‘ تفسیر کا عمدہ نمونہ (٢/٢)
آئیے اب ہم اپنے مضمون کے دوسرے حصہ کی جانب بڑھتے ہیں۔ اس حصہ میں ہم دکھائیں گے کہ مذکورہ آیہ مبارکہ کے اس ٹکڑے کا درست معنی کیا ہے۔ اس حصہ میں ہم اپنے قارئین کو یہ بھی دکھانا چاہیں گے کہ غامدی و اصلاحی نے اپنے ترجمہ و تفسیر میں کیسی فاش غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ لہذا ہم گفتگو کا آغاز قرآن مجید کی متعلقہ آیت سے کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ- وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِؕ-ذٰلِكُمْ فِسْقٌؕ۔ (٥:٣)تم پر حرام کیا گیا ہے مُردار، خون، سُور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا یو، وہ جو گلا گُھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے درندے نے پھاڑا ہو — سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کر لیا –اور وہ جو آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ قسمت معلوم کرو۔ (ترجمہ از تفھیم القرآن، مولانا مودودی)
یہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر تین کا متعلقہ جز ہے۔ اس میں حرمتوں کا بیان ہے۔ سورہ انعام میں چار چیزوں کی حرمت کو بیان کیا گیا تھا۔ اس آیہ مبارکہ میں محرمات کی فہرست میں اضافہ کیا گیا ہے۔ لہذا وہ لوگ جو سورہ انعام کی حرمتوں کو حصریہ اسلوب میں سمجھتے ہیں، اُن کے لیے اِس میں نشانیاں ہیں۔ مردار کے ساتھ منخقۃ اور موقوذۃ وغیرہ کو اکھٹا کرنے سے وہ حصر قائم نہیں رہتا۔ کیونکہ اِس حصر کو اگر قائم رہنا تھا، تو ایک ہی آیت میں مکمل فہرست کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میتہ کہہ دینا اور ما أھل لغیر اللہ کہہ دینا کفایت کرتا ہے۔ بہرحال آیہ مبارکہ کے اس جز میں فی الوقت ہماری توجہ کا مرکز وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِؕ کے الفاظ ہیں۔ اصلاحی و غامدی صاحبان نے اس کا ترجمہ بالترتیب ”اور یہ کہ تقسیم کرو تیروں کے ذریعہ سے۔“ (تدبر قرآن، جلد دوم، صفحہ 451) اور ”اور یہ بھی کہ تم (ُان کا گوشت) جوے کے تیروں سے تقسیم کرو۔“ (البیان) کے الفاظ سے کیا ہے۔ تقسیم، گوشت کی تقسیم اور جوے کے تیر جیسی تراکیب اس آیت کے الفاظ، نظمِ کلام اور سیاق و سباق کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتی۔ امام طبری رقم فرماتے ہیں:
{وأن تستقسموا بالأزلام} وأن تطلبوا علم ما قسم لكم أو لم يقسم بالأزلام. وهو استفعلت من القسم: قسم الرزق والحاجات . وذلك أن أهل الجاهلية كان أحدهم إذا أراد سفرا أو غزوا أو نحو ذلك, أجال القداح, وهي الأزلام, وكانت قداحا مكتوبا على بعضها: نهاني ربي, وعلى بعضها: أمرني ربي, فإن خرج القدح الذي هو مكتوب عليه: أمرني ربي, مضى لما أراد من سفر أو غزو أو تزويج وغير ذلك; وإن خرج الذي عليه مكتوب: نهاني ربي, كف عن المضي لذلك وأمسك فقيل: {وأنتستقسموا بالأزلام } لأنهم بفعلهم ذلك كانوا كأنهم يسألون أزلامهم أن يقسمن لهم. (تفسیر طبری)مطلب یہ کہ تم ان تیروں کی مدد سے جاننا چاہو کہ قسمت میں کیا لکھا ہے اور کیا نہیں لکھا۔ یہ طلب قسمت میں رزق اور دیگر ضروریات کے بارے میں ہوتی ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی سفر کا ارادہ کرتا یا جنگ کا اور ایسے ہی کچھ دوسرے اہم امور کا، تو وہ تیروں سے مدد لیتا تھا۔ انھی تیروں کو الأزلام کہتے ہیں۔ اُن میں سے بعض پر لکھا ہوتا، ’میرے رب نے مجھے یہ حکم دیا ہے‘ اور کچھ پر لکھا ہوتا، ’میرے رب نے مجھے اس سے منع فرمایا ہے‘۔ اگر ’اثبات‘ کی تحریر والا تیر نکلتا، تو جس چیز کی اس نے نیت کی ہوتی، جیسی شادی، جنگ یا سفر وغیرہ، تو وہ اپنی نیت پر عمل کر لیتا۔ اگر مناہی کی بات لکھی ہوتی، تو وہ رک جاتا۔ تو ان سے کہا گیا کہ {وأن تستقسموا بالأزلام} کہ تم اپنے اس عمل سے یہ ظاہر کرتے ہو کہ تم تیروں کو اپنی قسمت کا مالک سمجھتے ہو، یہ فسق ہے۔
ابنِ کثیر فرماتے ہیں۔
والاستقسام: مأخوذ من طلب القسم من هذه الأزلام . هكذا قرر ذلك أبو جعفر بن جرير وقال ابن أبي حاتم: حدثنا الحسن بن محمد بن الصباح، حدثنا الحجاج بن محمد، أخبرنا ابن جريج وعثمان بن عطاء، عن عطاء عن ابن عباس: (وأن تستقسموا بالأزلام) قال: والأزلام: قداح كانوا يستقسمون بها في الأمور. وكذا روي عن مجاهد وإبراهيم النخعي والحسن البصري ومقاتل بن حيان. وقال ابن عباس : هي القداح كانوا يستقسمون بها الأمور .( تفسیر ابن کثیر) استقسام تیروں سے قسمت کے حال کو طلب کرنے سے ماخوذ ہے۔ ابو جعفر ابن جریر نے اس کی یہی تقریر فرمائی ہے۔ ابنِ ابی حاتم سے حسن بن محمد بن صباح نے نقل کیا جس سے حجاج بن محمد نے بیان کیا جس کو ابن جریج اور عثمان بن عطاء نے بیان کیا، جنہوں نے عطاء سے نقل کیا اور عطاء نے ابن عباس سے کہ آیہ مبارکہ کے اس ٹکڑے (وأن تستقسموا بالأزلام) میں أزلام سے مراد قسمت کے تیر ہیں، جن سے لوگ اپنی قسمت کے بارے راہنمائی لیتے تھے۔ یہی قول مجاہد، ابراہیم نخعی، حسن بصری اور مقاتل بن حیان سے منقول ہے۔ ابن عباس أزلام سے ان تیروں کو مراد لیتے تھے، جن سے وہ لوگ قسمت کا حال جاننے کی کوشش کرتے تھے۔
یہ محض مفسرین کی رائے نہیں ہے۔ بلکہ اہلِ لغت اور ماہرینِ ادب بھی وأن تستقسموا بالأزلام سے یہی مراد لیتے ہیں۔ لسان العرب کے مصنف اس لفظ کے معنی بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: واسْتَقْسَمَ أَي طَلَبَ القَسْم بالأَزلام. یعنی اس نے تیروں سے قسمت کا حال معلوم کیا۔ اہل لغت کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ الأزلام سے قسمت کے تیر مراد ہیں۔ ان سے جوے کے تیر مراد نہیں۔ اصلاحی صاحب نے الأزلام کے معنی کی لغوی تحقیق کے بغیر دعوی کیا کہ الأزلام سے جوے اور قسمت کے تیر دونوں مراد ہیں۔ بالفاظِ دیگر، جس طرح الأزلام قسمت کے تیروں کے لیے بولا جاتا ہے، ویسے ہی الأزلام جوے کے تیروں کے لیے معروف ہے۔ یہ دعویٰ باطل ہے۔ قسمت کے تیروں کے لیے الأزلام معروف ہے۔ اس لفظ سے جوے کے تیر مراد لینا چند لوگوں کی رائے ہے۔ جن لوگوں نے اسے جوے کی تیروں کے معنوں میں سمجھا ہے، أزہری کے مطابق انھیں وہم ہوا ہے۔ قَالَ الأَزهري: فَهَذَا الْحَدِيثُ يُبَيِّنُ لَكَ أَن الأَزلام قِداحُ الأَمر وَالنَّهْيِ لَا قِداح المَيْسر، قَالَ: وَقَدْ قَالَ المؤَرّج وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَهل اللُّغَةِ إِن الأَزلام قِدَاحُ الْمَيْسِرِ، قَالَ: وَهُوَ وهَم.أزہری فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ الأزلام امر و نہی کے تیر ہیں۔ یہ جوے کے تیر نہیں۔ مؤرج اور اہل لغت میں سے چند لوگوں کی رائے میں الأزلام جوے کے تیر ہیں۔ أزہری کہتے ہیں کہ انھیں وہم ہوا ہے۔ (لسان العرب)
اصلاحی صاحب کو وہم ہوا ہے کہ”اَزْلاَم جوے یا فال کے تیروں کو کہتے ہیں۔“ غامدی صاحب نے محض استاذ کی تقلید میں ان معانی کو قبول کر لیا اور انھوں نے خود بھی لغت وغیرہ کی طرف رجوع کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس پر مستزاد، غامدی صاحب نے اس آیہ مبارکہ کو ماذبح علی النصب کے ساتھ جوڑ دیا، جس کی کوئی تُک نہیں بنتی اور پھر صراحت کے ساتھ اُسے گوشت کی تقسیم سے نتھی کردیا۔ غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں اصولِ تفسیر کے ضمن میں اِس اُصول کو بیان کیا ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ کی اُن کے معروف معنوں میں تفھیم کی جائے گی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ غامدی صاحب کس طرح اپنے ہی بنائے اصولوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور بغیر کسی دلیل و استدلال کے قرآن مجید کے معروف معنی کو ترک کرتے ہوئے، ایک ایسے معنی کو اختیار کرتے ہیں، جن کا قرآن مجید کے نظمِ کلام، اس کے سیاق و سباق اور مدعائے متکلم کے ساتھ دور دور کا کوئی تعلق نہیں۔ اصلاحی و غامدی صاحبان اسْتِقْسم کے فعل کو جس میں طلب کا مفہوم بالقوی پایا جاتا ہے، اسے قَسم سے بدل دیتے ہیں اور انھیں اس کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ قسمت کا حال معلوم کرنے اور تقسیم کرنے میں جو معنوی بُعد پایا جاتا ہے، وہ ہم سب کو معلوم ہے۔ اسْتِقْسم میں تقسیم کرو کا مفہوم داخل ہی نہیں کیا جا سکتا، کجا اس پر آیت کے مفہوم کو متعین کیا جائے۔ اسْتِقْسم بالأَزلام ایک فریز ہیں، جس کے معنی تیروں سے قسمت کا حال معلوم کرنا ہے اور اس پر اہلِ لغت یک زبان ہیں۔ اصلاحی و غامدی صاحبان روایت بیزاری اور کلام پر حاکمانہ تصرف کے داعیات کے تحت قرآن مجید کے الفاظ کو ایسے معانی پہناتے ہیں، جن کا اس کے الفاظ، سیاق و سباق اور نظمِ کلام سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ مجاہد، ابراہیم نخعی، حسن بصری اور مقاتل بن حیان رحمہم اللہ سب کی رائے یہ ہے کہ ”والأزلام: قداح كانوا يستقسمون بها في الأمور“ (أذلام تیر ہیں جن کی مدد سے وہ لوگ اہم امور میں تقدیر کی منشاء معلوم کرتے تھے۔)۔ اصلاحی و غامدی صاحبان نے ان بزرگوں کی رائے کو نظر انداز کیا۔ لفظوں کی معلوم و معروف معنوی مراد کو ترک کیا اور شاذ و مہمل معانی کو اختیار کیا۔ ابن منظور رقم کرتے ہیں:
الزَّجَّاجُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلامِ، قَالَ: مَوْضِعُ أَن رَفْعٌ، الْمَعْنَى: وحُرّم عَلَيْكُمِ الاسْتِقْسام بالأَزلام؛ والأَزْلام: سِهام كَانَتْ لأَهل الْجَاهِلِيَّةِ مَكْتُوبٌ عَلَى بَعْضِهَا: أَمَرَني ربِّي، وَعَلَى بَعْضِهَا: نَهاني رَبِّي، فإِذا أَراد الرَّجُلُ سفَراً أَو أَمراً ضَرَبَ تِلْكَ القِداح، فإِن خَرج السَّهْمُ الَّذِي عَلَيْهِ أَمرني رَبِّي مَضَى لِحَاجَتِهِ، وإِن خَرَجَ الَّذِي عَلَيْهِ نَهَانِي رَبِّي لَمْ يَمْضِ فِي أَمره، فأَعلم اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَن ذَلِكَ حَرام؛ قَالَ الأَزهري: وَمَعْنَى قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلامِ أَي تَطْلُبُوا مِنْ جِهَةِ الأَزلام مَا قُسِم لَكُمْ مِنْ أَحد الأَمرين، وَمِمَّا يُبَيِّنُ ذَلِكَ أَنَّ الأَزلام الَّتِي كَانُوا يَسْتَقْسِمُونَ بِهَا غَيْرُ قِدَاحِ الْمَيْسِرِ، مَا رُوِيَ۔
(مشہور و معروف نحوی اور ماہر ادب) زجاج اللہ تعالیٰ کے اس قول وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلامِ کے ضمن میں فرماتے ہیں: أَن یہاں پر مرفوع ہے۔ اور اس کا معنی یہ ہے کہ تم پر تیروں سے قسمت کا حال معلوم کرنا حرام کردیا گیا ہے۔ اَزْلاَم سے مراد تیر ہیں۔ عہد جہالت میں ان تیروں میں سے کچھ پر ’میرے رب کا حکم یہی ہے‘ اور کچھ پر ’میرے رب نے مجھے منع کیا’ لکھا ہوتا تھا۔ جب کوئی شخص سفر پر نکلتا یا اسی طرح کے کسی دوسرے اہم کام کا ارادہ کرتا، تو وہ فال نکالتا۔ اگر اس کا ہاں میں جواب نکلتا، تو وہ اپنا کام کرتا اور اگر نہیں والا تیر نکلتا، تو وہ کام کرنے سے رک جاتا۔ پروردگار نے ہمیں علم فراہم کیا کہ ایسا کرنا حرام ہے۔ أزہری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلامِ کا مطلب یہ ہے کہ تیروں سے قسمت کا حال معلوم کرنا حرام ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت ایک حدیث کے الفاظ سے بھی ہوتی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تیر جوے کے تیر نہیں، بلکہ قسمت کے تیر ہیں۔ (لسان العرب)
اصلاحی صاحب اور پھر ان کے تتبع میں غامدی صاحب کو وہم ہوا ہے کہ اَزْلاَم سے جوے کے تیر بھی ویسے ہی مراد ہیں، جیسے فال کے تیر ہیں۔ ابن منظور نے جس صراحت سے اس جملہ کا مطلب بیان کیا ہے، اس کے بعد کسی دوسری رائے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ پھر ماہرین لغت و ادب نے اس لفظ کے فال کے تیروں سے اختصاص کو جس طرح بیان کیا ہے، اس سے بھی یہ غلط فہمی دور ہو جاتی ہے کہ اس لفظ سے دونوں طرح کے تیر مراد ہیں۔ مفسرین کرام کی وضاحت ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ لہذا یہ نتیجہ منطقی طور پر نکلتا ہے کہ اصلاحی و غامدی دونوں کو اس لفظ کے فہم میں وہم لاحق ہوا ہے۔ اب سوال محض یہ ہے کہ اُنھیں اِس وہم کے لاحق ہونے کی توجیہ کیا ہے۔ پہلے یہ جان لیں کہ خاص اس مسئلہ میں اصل شخصیت اصلاحی صاحب کی ہے۔ غامدی صاحب نے محض انھیں نقل کیا ہے اور نقل کرتے ہوئے کچھ مزید غلطیاں کی ہیں، جن کی وضاحت ہم پہلے کر چکے ہیں۔ لہذا دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اصلاحی صاحب کو یہ غلطی کہاں سے لگی۔ یاد کریں کہ اصلاحی صاحب نے بولا تھا ”کہ عرب شراب نوشی کی مجلسیں منعقد کرتے، شراب کے نشے میں جس کا اونٹ چاہتے ذبح کر دیتے، مالک کو منہ مانگے دام دے کر راضی کر لیتے، پھر اُس کے گوشت پر جوا کھیلتے۔ گوشت کی جو ڈھیریاں جیتتے جاتے، اُن کو بھونتے، کھاتے، کھلاتے اور شرابیں پیتے اور بسا اوقات اِسی شغل بدمستی میں ایسے ایسے جھگڑے کھڑے کر لیتے کہ قبیلے کے قبیلے برسوں کے لیے آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے اور سیکڑوں جانیں اِس کی نذر ہو جاتیں.“ اصلاحی صاحب نے یہ وضاحت سورہ بقرہ کی تفسیر میں خمر و میسر کے تحت بیان کی ہے۔ یعنی وہ پس منظر جو انھیں میسر کے تفسیر میں درکار اور مہیا تھا، اُنھوں نے اُسی پس منظر کو جوں کا توں اَزْلاَم پر چسپاں کردیا اور اِس امر کا لحاظ نہیں کیا کہ اَزْلاَم اور میسر میں کسی طرح کا امتیاز پایا جاتا ہے۔ أزہری فرماتے ہیں:
قال الأزهري: الميسر: الجزور الذي كانوا يتقامرون عليه، سمي ميسرا لأنه يجزأ أجزاء، وكل شي جزأته فقد يسرته. والياسر: الجازر، لأنه يجزئ لحم الجزور. قال: وهذا الأصل في الياسر، ثم يقال للضاربين بالقداح والمتقامرين على الجزور: ياسرون؛ لأنهم جازرون؛ إذ كانوا سببا لذلك.میسر سے مراد وہ جزور ہیں، جن پر اہلِ جاہلیت جوا کیا کرتے تھے۔ اسے میسر اس لیے کہا گیا کیونکہ وہ اس کا جز جز کردیتے تھے۔ جس چیز کو آپ اجزاء میں تقسیم کردیں، آپ اس کو آسان بنا دیتے ہیں۔ یاسر اصلاً جازر ہوتا ہے۔ مطلب کہ یاسر جز جز کرنے والے کو کہتے ہیں۔ کیونکہ یاسر جزور کے گوشت کو چھوٹے چھوٹے اجزاء میں بدل دیتا ہے۔ أزھری کے نزدیک یاسر کی اصل یہی ہے۔ اسی بنا پر جو تیروں سے مارتے ہیں اور جزور پر قمار بازی کرتے ہیں، اُنھیں یاسرون کہا جاتا ہے۔ چونکہ وہی جازرون ہوتے ہیں اور انھی کے سبب یہ بازار گرم ہوتا ہے۔(تفسیر قرطبی)
لہذا اصلاحی صاحب کو وہم لگنے کی پہلی وجہ أزلام کو میسر سے خلط کرنا ہے۔ انھوں نے أذلام کو میسر کا سیاق دینے کی کوشش کی اور خطا کے مرتکب ہوئے۔ انھوں نے جو اونٹوں کو ذبح کرنے اور گوشت کی ڈھیریاں لگانے، اس پر جوا کھیلنے کی بات کی، اُس کا بیان اُنھوں نے میسر کی ممانعت سے اخذ کیا۔ اس کا أذلام سے کوئی تعلق نہیں۔ مفسرین کرام اور ماہرین لسانیات کی صراحتوں کو وہ ویسے ہی خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ ان کا خود پر اعتماد تھا کہ انھوں نے استقسام کے درست معنی بتانے کے باوجود آیہ مبارکہ کے غلط معنی متعین کیے۔ أزھری نے وضاحت کی ہے کہ گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور اس پر جوا کھیلنے کی ممانعت میسر کی ممانعت سے متعلق ہے۔ اس کا أذلام سے کوئی تعلق نہیں اور جو اس تعلق کو جوڑے، وہ وہم میں تو ایسا کر سکتا ہے, ہوش و حواس میں ایسا نہیں کر سکتا۔ غامدی صاحب نے اصلاحی صاحب کو جوں کا توں نقل کیا اور خود سوچنے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ اصلاحی صاحب اگر اسلاف کی تفاسیر سے استفادہ کرتے اور لغت کی مراجعت فرماتے، تو وہ یقیناً ایسی بنیادی غلطی سے محفوظ رہ سکتے تھے۔ غامدی صاحب نے اصلاحی صاحب کے الفاظ ”مجھے خیال ہوتا ہے“ کو بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ غامدی صاحب کو دیکھنا چاہیے کہ ایک آدمی قرآن مجید کے تفسیر میں ”مجھے خیال ہوتا ہے“ جیسے غیر محتاط الفاظ استعمال کررہا ہے، جس کے واضح معانی یہ ہیں کہ وہ اپنے ترجمہ و تفسیر کے بارے میں کسی یقین کے موقف پر قائم نہیں۔ بلکہ محض اپنے ”خیال“ کو قرآن مجید جیسے مقدس اور الوہی کلام کی تفسیر کے طور پر پیش کررہا ہے۔ لہذا غامدی صاحب کو متنبہ ہونے کی ضرورت تھی۔ لیکن غامدی صاحب نے اِس پر کوئی توجہ نہیں دی اور اصلاحی صاحب کو جوں کا توں نقل کرنے پر اکتفاء کیا۔ فراہی صاحب نے درست کہا ہے کہ قران مجید کے مفسر کو دو وجوہات سے غلطی لگتی ہے۔ ایک قلتِ علم اور دوسرے قلتِ تدبر۔ ان صاحبان کے علم پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ البتہ تدبر کی قلت اس تجزیہ سے بالکل واضح ہے۔ بلکہ اصلاحی صاحب کا یہ الفاظ کہ انھیں خیال ہوتا ہے، خود بتاتے ہیں کہ انھوں نے ضروری محنت اور تدبر کے بغیر قرآن مجید کی تفسیر کو بیان کیا ہے۔ غامدی صاحب نے محض اصلاحی صاحب کو نقل کیا اور خود تدبر کرنے سے پرہیز کیا۔ لہذا ان صاحبان کو وہم لگنے کی اصل وجہ تدبر کی قلت ہے۔ دوسری وجہ دستیاب علمی مصادر اور اسلاف کی تفاسیر سے مجموعی اعراض کا رویہ ان حضرات کے علم و فکر میں سقم کا باعث ہے۔ یہ گویا اس مدرسہ کا طرۂ امتیاز (hallmark) ہے۔ تیسری وجہ ان کے متجددانہ عزائم ہیں، جو فراہی سے اصلاحی اور اصلاحی سے غامدی کی جانب آتے ہوئے بڑھتے اور مستحکم ہوتے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاحی صاحب ’مجھے خیال ہوتا ہے‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں کہیں یہ بات موجود تھی کہ أزلام اور أزلام کے ساتھ استقسم کا فعل استعمال ہو، تو معنی جوے کے تیر اور تقسیمِ گوشت کے نہیں نکلتے۔ چونکہ آیت میں کھانے کی حرمتوں کا بیان ہے اور یکا یک پانسے کے تیروں کی حرمت کا بیان سامنے آتا یے، تو وہ اس کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید کا یہ عام اسلوب ہے کہ وہ منطق اور زبان و بیان کے لگے بندھے اصولوں کی بجائے خطابت کے اصول پر تکلم کرتا ہے اور بہت سے موقعوں پر اچانک اپنے مخاطبین کو بدل دیتا ہے اور موضوع سے یکسر ہٹ کر کلام کرتا ہے۔ غامدی صاحب بالخصوص حرمتوں کو چار محرماتِ طعام سے جوڑنے کا موقف رکھتے ہیں۔ وہ اصلاحی صاحب سے زیادہ متشدد ہیں کہ حرمتوں کا بیان ان کے بنائے ہوئے اصولوں سے باہر نہ نکل پائے۔ حالانکہ قرآن مجید جس چیز کی حرمت کو بیان کرنا چاہتا ہے، اُس کی حرمت بیان کرتا ہے اور جس کی حرمت کو جب بیان کرنا چاہتا ہے اور جہاں کرنا چاہتا ہے، وہاں بیان کرتا ہے۔ آئیں اب ہم سورہ بقرہ کی متعلقہ آیات کا ترجمہ جو اصلاحی صاحب اور غامدی صاحب نے کیا ہے، اسے دیکھتے ہیں:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۹۰﴾ غامدی: اے ایمان والو، شراب، جوا، تھان اور پانسے کے تیر بالکل نجس شیطانی کاموں میں سے ہیں تو ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (البیان)اصلاحی: ایمان والو، یہ شراب اور جوا اور تھان اور قسمت کے تیر، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، سو اِن سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (تدبرِ قرآن)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ غامدی صاحب اور اصلاحی صاحب دونوں نے اس آیت میں أزلام کو بالترتیب ’پانسے کے تیر‘ اور ’قسمت کے تیر‘ کے الفاظ میں ترجمہ کیا ہے۔ اس آیہ مبارکہ میں میسر کا ترجمہ انھوں نے جوا کیا ہے۔ چونکہ اس آیہ مبارکہ میں میسر اور أزلام دونوں بیک وقت حرمت کا موضوع ہیں، لہذا ان کے امتیاز کو ملحوظ رکھنا ان حضرات کی مجبوری تھی۔ لیکن جب سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3 جس میں محض أزلام کی حرمت زیر بحث ہے، وہاں اُنھوں نے أزلام کو بلا وجہ میسر کی طرف پھیر دیا اور استقسم کے ابوابی اور لغوی معنی کو روندتے ہوئے ’تیروں سے تقسیم‘ اور ’تیروں سے اُن کے گوشت کی تقسیم‘ کردیا۔ ان کا یہ ترجمہ و تفسیر یکسر غلط اور باطل ہیں، جسے ہم وضاحت کے ساتھ بیان کر چکے ہیں۔ دوسرا اس آیہ مبارکہ میں بھی انصاب کا ذکر ہے۔ لیکن یہاں غامدی صاحب نے أذلام کو انصاب سے نہیں جوڑا۔ بلکہ ان سب کو الگ الگ بیان کیا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر أذلام کو ’پانسے کے تیر‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اُن کے احباب یہ دعویٰ کہ الفاظ کی قطعی دلالت کا مظاہرہ اگر دیکھنا ہو، تو مدرسۂ فراہی کے آئمہ کی اِن تین تفاسیر کو دیکھ لیا جائے، خواہ مخواہ کی ڈینگیں ہیں۔ یہ انسانی کام ہیں اور ان میں بہت سی خامیاں موجود ہیں۔ دلالت کی ظنیت کا مظاہرہ دیکھنے کے لیے تو یہ تفاسیر مناسب میڑیل ہیں۔ قطعیت کے لیے ہرگز نہیں۔ کیونکہ جو چیز شعور انسانی سے گزرتی یے، ظن اس کی تقدیر بن جاتی ہے۔ لیکن یہ بات سمجھنے کے لیے کچھ محنت اور زیادہ مطالعہ درکار ہے، جو ان کے بس کی بات نہیں۔ لہذا سوال یہ ہے کہ أذلام یہاں پانسے کے تیر اور سورہ مائدہ کی مذکورہ آیہ مبارکہ میں جوے کے تیر کیسے بن جاتے ہیں۔ وہم کے سوا اِس کی کوئی توجیہ نہیں۔ یہ ایسا وہم ہے جو جانتے بوجھتے لاحق ہوتا ہے، کیونکہ آپ متن کے داخلی قرائن اور خارجی وسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مزعومہ نظریات کی تائید متن سے چاہ رہے ہوتے ہیں۔ لہذا اس سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسلاف کے علمی کاموں کی مراجعت کو اپنا مستقل وظیفہ بنایا جائے۔
Sponsor Ask Ghamidi
Sorry, there were no replies found.