-
حدیثِ بیعتین فی بیعۃ کی تشریح اور متعدد قیمتوں کا حکم
محترم جناب جاوید احمد غامدی صاحبالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہامید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔میں آپ سے ایک حدیث کے مفہوم اور اس کے عملی اطلاق کے بارے میں رہنمائی چاہتا ہوں۔ حدیث یہ ہے:“نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ”(جامع ترمذی، حدیث نمبر 1231)عام طور پر اس حدیث کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ “ایک ہی معاملے میں دو بیعیں یا دو قیمتیں رکھنا جائز نہیں”، لیکن اس کے اصل مفہوم اور دائرۂ اطلاق کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔میرا سوال ایک عملی مثال کے ساتھ یہ ہے:فرض کریں میں کسی چیز (مثلاً موبائل فون) کی درج ذیل قیمتیں ابتدا ہی میں واضح طور پر بتا دیتا ہوں:نقد قیمت: 50,000 روپے3 ماہ میں ادائیگی پر: 60,000 روپے6 ماہ میں ادائیگی پر: 70,000 روپے12 ماہ میں ادائیگی پر: 80,000 روپےاس کے ساتھ ساتھ کسٹمر کے ساتھ باقاعدہ تحریری معاہدہ بھی کیا جاتا ہے، جس میں یہ تمام قیمتیں، ان کی مدتیں اور ہر مدت کی شرائط واضح طور پر درج ہوتی ہیں، تاکہ بعد میں کسی قسم کی غلط فہمی یا نزاع پیدا نہ ہو۔معاہدے میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ کسٹمر جس مدت میں اپنی ادائیگی مکمل کرے گا، اسی مدت کے مطابق اس پر قیمت لاگو ہو جائے گی۔ یعنی اگر وہ 3 ماہ میں ادائیگی مکمل کر دیتا ہے تو قیمت 60,000 سمجھی جائے گی، اگر 6 ماہ میں مکمل کرے تو 70,000، اور اسی طرح۔میرا سوال یہ ہے کہ:کیا اس طرح ابتدا میں تمام قیمتوں اور شرائط کو واضح کر کے، اور تحریری معاہدے کے ذریعے غلط فہمی سے بچتے ہوئے معاملہ کرنا، حدیث “بیعتین فی بیعۃ” کے دائرے میں آتا ہے؟یا اس حدیث میں اصل ممانعت اس صورت سے ہے جہاں قیمت یا معاملہ ابتدا میں غیر واضح، مبہم یا معلق رکھا جائے؟آپ کے نزدیک قرآن و سنت کے عمومی اصولِ عدل، شفافیت اور رضامندی کی روشنی میں اس طرح کا طریقہ جائز ہوگا یا ناجائز؟میں چاہتا ہوں کہ اس حدیث کے مفہوم کو فقہی اصطلاحات کے ساتھ ساتھ اس کے اخلاقی اور اصولی پس منظر میں بھی سمجھ سکوں۔آپ کی رہنمائی میرے لیے باعثِ احترام اور نہایت قیمتی ہوگی۔جزاکم اللہ خیراًوالسلاممحمد طاہر
Sponsor Ask Ghamidi
Sorry, there were no replies found.