Forums › Forums › Sources of Islam › Hassan Ilyas's Article On Return Of Jesus AS
Tagged: Jesus, Principles, Quran
-
Hassan Ilyas's Article On Return Of Jesus AS
Posted by Yusha ibn ghaffar yusha on December 2, 2020 at 8:16 pmhassan bhai referneces an article which goes in depth of word.
can u please send me link to that article.
Mohsin Raza replied 3 years, 6 months ago 3 Members · 2 Replies -
2 Replies
-
Hassan Ilyas's Article On Return Of Jesus AS
-
Faisal Haroon
Moderator December 9, 2020 at 12:09 amPlease see the entire article by Hassan Ilyas sahab below:
“توفَّى کا مطلب”
توفَّى يتوفَّى ، توفَّ ، توفّيًا ، فهو مُتَوَفٍّ ، والمفعول مُتَوَفًّى ،یہ باب تَفَعُّل ہے ۔اس میں توفَّى کا لغوی معنی پورا پورا لے لینے کا ہے۔یہ فعل اپنے مفعول سے متعلق ہو کر بتاتا ہے کہ یہ لغوی معنی کیسے ادا کیا جائے گا.
مثلا یہ اگر حق سے متعلق ہوتا ہے تو ‘توفّى الشّخص حقّه’ کا معنی ہوگا پورا پورا حق لینا، کسی کمی بیشی کے بغیر ۔
اسی طرح توفَّى کا مفعول اگر مدت بنے تو ‘توفى المدة’ کا مطلب ہے مدت کو پہنج جانا۔
یہ فعل جب شئ سے متعلق ہوتا ہے تو ‘توفی الشيء ‘ کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کو کامل بنانا۔
جب یہ فعل رجل کے ساتھ متعلق ہوتا ہے تو اس موقع پر یہ اصلا اپنے مجازی مفہوم میں معنی ادا کرتا ہے۔مثلا توفَّى کا لغوی معنی تھا پورا پورا لے لینا، جب یہ بندے کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو “موت دینے” کے معنی میں آتا ہے. موت میں بھی چونکہ انسان کو پورا پورا لیا جاتا ہے، اس لیے لغوی معنی اپنے مجازی مفھوم میں استعمال ہو جاتاہے ۔
لھذا ‘ توفّى الله الشّخص’ کا مطلب ہوتا ہے “أماته” ,یعنی اللہ نے اس شخص کو موت دے دی۔
توفَّى کا متعلق جب رجل بنے تو کیا ہر موقع پر اس کا مطلب موت دینا ہوتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس فعل کا معروف مطلب یہی ہے الا یہ کہ اس کلام میں ایسی کوئی دلیل موجود ہو جو موت دینے کے معروف معنی لینے میں مزاحم ہو ۔دلیل سے مراد یہ ہے کہ کلام اپنے اندر ایسے وہ اشارات رکھتا ہے جو لفظ کو اس کے معروف معنی استعمال نہیں ہونے دیتے۔
مثلا قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:
“ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ”
(سورہ آل عمران، 161)
ترجمہ:پھر ہر شخص کو اُس کی کمائی کا “پوراپورا بدلہ مل جائے گا” اور کسی کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔
یہاں اس کلام میں قرینے اور جملے کے تمام تقاضوں نے بتا دیا ہے کہ آیت میں توفی کا متعلق رجل ہونے کے باوجود حقیقی موت کے معروف معنی مراد نہیں لیے جا سکتے۔بلکہ یہاں وہی لغوی معنی ہے جو لیا جائے گا۔
لیکن جن مقامات پر کلام میں ایسے دلائل اور قرائن موجود نہیں ہیں وہاں اس فعل کا معروف معنی موت دینا ہی ہے۔
قرآن مجید کی درج ذیل آیات میں یہ فعل اسی معروف معنی میں استعمال ہوا ہے:
1-وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُالْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ.(سورہ انعام، آیت 61)
ترجمہ:
وہ اپنے بندوں پر پوری طرح حاوی ہے اور تم پر (اپنے) نگران مقرر رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ہی اُس کی “روح قبض” کرتے ہیں اور (اِس کام میں) کبھی کوتاہی نہیں کرتے۔
2-وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا (سورہ نسا، آیت 15)
ترجمہ:
اور تمھاری عورتوں سے جو بدکاری کرتی ہیں، اُن پر اپنے اندر سے چار گواہ طلب کرو۔ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو اُنھیں گھروں میں بند کردو، یہاں تک کہ اُن کی “موت آجائے “یا اللہ اُن کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔
3-ما قلت لهم إلا ما أمرتنى به أن إعبدوا الله ربى وربكم وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم فلما تــوفيتنى كنت أنت الرقيب عليهم وأنت على كل شئ شهيد .(سورہ مائدہ، آیت 117)
ترجمہ:
میں نے تو اُن سے وہی بات کہی تھی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی۔ میں اُن پر نگران رہا، جب تک میں اُن کے درمیان تھا۔ پھر جب آپ نے “مجھے وفات دی” تو اُس کے بعد آپ ہی اُن کے نگران رہے ہیں اور آپ ہر چیز پر گواہ ہیں
4-اللَّه يُتَوَفَّى الْأَنْفُس حِين مَوْتهَا وَاَلَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامهَا فَيُمْسِك الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْت وَيُرْسِل الْأُخْرَى إِلَى أَجَل مُسَمًّى (سورہ زمر، آیت 42)
ترجمہ:
(تم اِن سے کیوں ڈرو؟ حقیقت یہ ہے کہ) اللہ ہی جانیں “قبض کرتا ہے”، جب اُن کی موت کا وقت آجاتا ہے اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی، اُنھیں بھی نیند کی حالت میں (اِسی طرح) قبض کر لیتا ہے۔پھر جن کی موت کا فیصلہ کر چکا، اُن کو روک لیتا ہے اور جو باقی ہیں، اُنھیں ایک مقرر وقت تک کے لیے رہا کر دیتا ہے۔ اِس میں، یقیناًاُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔
5-إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ.
ترجمہ:اس وقت، جب اللہ نے کہا: اے عیسیٰ ، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تجھے “وفات دوں گا “اور اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔
6-وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الذي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ البلاغ وَعَلَيْنَا الحساب (سورہ رعد، آیت 40)
ترجمہ:
ہم جو وعید اِنھیں سنا رہے ہیں، اُس کا کچھ حصہ ہم تمھیں دکھا دیں گے یا تم کو “وفات دیں گے “(اور اِس کے بعد اِن سے نمٹیں گے)۔ سو تمھاری ذمہ داری صرف پہنچانا ہے اور اِن کا حساب لینا ہمارا کام ہے۔
7-إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (سورہ نساء، آیت 97)
ترجمہ
جن لوگوں کی جان فرشتے اِس حال میں “قبض کریں گے “کہ (اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال کر) وہ اپنی جان پر ظلم کر رہے تھے، اُن سے وہ پوچھیں گے کہ یہ تم کس حال میں پڑے رہے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم تو اِس ملک میں بالکل بے بس تھے۔ فرشتے کہیں گے: کیا خدا کی زمین ایسی وسیع نہ تھی کہ تم اُس میں ہجرت کر جاتے۔سو یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔
8وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّأَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرا (سورہ بقرہ، آیت 234)
ترجمہ:
اور تم میں سے جو لوگ “وفات پا جائیں ” اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑیں تو وہ بھی اپنے آپ کو چار مہینے دس دن انتظار کرائیں ۔
9-رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَالْأَبْرَارِ (سورہ آل عمران 193)
ترجمہ:
اے پروردگار اب تو ہمارے گناہوں کو بخش دے، اے مالک۔ ہماری برائیوں کو ہم سے دور کردے اور ہمیں اپنے وفادار بندوں کے ساتھ “موت دے”۔
10-حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُوا أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ
(سورہ الأعراف آیت 37)
ترجمہ:
یہاں تک کہ جب ہمارے فرشتے اُن کی “روحیں قبض” کرنے کے لیے اُن کے پاس آئیں گے تو پوچھیں گے کہ اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے تھے، وہ کہاں ہیں؟ وہ کہیں گے کہ وہ سب تو ہم سے کھوئے گئے اور اپنے خلاف خود گواہی دیں گے کہ وہ فی الواقع منکر تھے
ان سب آیات میں توفَّى بغیر کسی ایسے قرینے کے استعمال ہوا ہے جو موت کا معنی لینے میں مزاحم ہو لھذا ان تمام مقامات پر اہل علم موت کا ہی ترجمہ کرتے ہیں۔
توفَّى کے فعل کے درست معنی کی تعین میں ایک غلط فہمی اس لیے بھی پیش آتی ہے کہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وفّی یوفی باب تفعیل سے آتا ہے تو اس کا معنی پورا پورا دینا/ادا کرنا ہوتا ہے اس پر قیاس کر کے تفعیل کے معنی کو تفعل میں لے جا کر محض متعدی کر دینے سے معنی ادا ہو جائے گا۔
اس پر عرض یہ ہے کہ عربی زبان میں انتقال باب سے کسی لفظ کے اندر خاصیت باب داخل کر دینے سے معنی نہیں اخذ کیا جاتا بلکہ
اس باب میں لفظ کے اپنے متعلقات سے مل کر تمام استعمالات کو دیکھا جاتا ہے پھر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس فعل کا معروف معنی کیا ہے۔
اس کی مثال اردو زبان میں” انتقال “کے لفظ میں ہے. جو نقل سے بنا ہے.یہ لفظ مطلق استعمال ہو ،بغیر کسی قرینے کے تو مراد “موت” ہی ہوتی ہے. جیسے ہم بے تکلف کہتے ہیں فلاں صاحب کل شام انتقال کر گئے یعنی وہ وفات پا چکے ہیں۔
اور اگر کوئی قرینہ آجائے تو “انتقال” موت کے بجائے نقل مکانی کے مفہوم میں ادا کیا جا سکتا ہے. مثلا خالد صاحب اپنی نوکری کے سلسلے لاہور سے کراچی انتقال کر گئے ہیں ۔(اگرچہ یہ جملہ اردو روز مرہ میں اس طرح مستعمل نہیں جیسے قدیم اردو میں تھا)
محمد حسن الیاس۔
-
Mohsin Raza
Member June 15, 2021 at 6:49 pmبہت شکریہ. اللہ آپ پر اپنا کرم کرے
Sponsor Ask Ghamidi