وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّـهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَإِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۖ وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ
اور اِسی طرح اُن لوگوں نے بھی کہا ہے جو (کتاب الٰہی کا) علم نہیں رکھتے[281] کہ اللہ ہم سے (براہ راست) کیوں ہم کلام نہیں ہوتا [282] یا ہمارے پاس کوئی واضح نشانی کیوں نہیں [283] آتی؟ بالکل اِسی طرح جو اِن سے پہلے گزرے ہیں، اُنھوں نے بھی اِنھی کی سی بات کہی تھی۔ اِن سب کے دل ایک سے [284] ہیں۔ ہم نے اپنی نشانیاں اُن لوگوں کے لیے جو یقین کرنا چاہیں، ہر لحاظ سے واضح کر دی ہیں، ([285] لہٰذا تمھاری کوئی ذمہ داری نہیں کہ اِن کی خواہش کے مطابق اِنھیں معجزے اور نشانیاں دکھا ؤ)۔ہم نے تمھیں حق کے ساتھ بھیجا ہے، (اے پیغمبر)، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر، اور تم سے اِن دوزخ والوں [286] کے بارے میں ہرگز کوئی پرسش نہ ہو گی۔
جاوید احمد غامدی
جاوید احمد غامدی
281 یعنی مشرکین عرب جو صدیوں سے وحی اور کتاب نام کی کسی چیز سے واقف نہ تھے۔
282 یعنی ہم جو قریش کے سردار ہیں اور اثر و اقتدار میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کہیں بڑھ کر ہیں تو اللہ تعالیٰ ہم سے براہ راست کیوں بات نہیں کرتا؟ قریش کے اِس مطالبے کا جواب قرآن نے بعض دوسرے مقامات پر دیا ہے، لیکن یہاں نہیں دیا۔ اِس سے یہ اشارہ کرنا پیش نظر ہے کہ یہ مطالبہ اِس قدر احمقانہ ہے کہ اِس کے جواب میں خاموشی ہی اِس کا جواب ہے۔ سرداران قریش کے پندار سیاست پر، ظاہر ہے کہ جو ضرب اِس خاموشی سے لگ سکتی تھی، وہ اِس مطالبے کے کسی جواب سے نہیں لگ سکتی تھی۔
283 نشانی سے اُن کی مراد کوئی ایسی نشانی تھی جسے دیکھ کر ہر شخص پکار اٹھے کہ اِس کا دکھانے والا یقینا کوئی فرستادۂ خداوندی ہی ہو سکتا ہے۔ مثلاً یہ کہ اِس رسول کے ساتھ کوئی فرشتہ آسمان سے اترے اور گلی کوچوں میں اِس کی منادی کرتا پھرے یا کم سے کم اِس کے اشارے پر اُس عذاب ہی کا کوئی نمونہ دکھا دیا جائے جس کی وعید وہ شب و روز اُنھیں سناتا ہے۔
284 یعنی جس طرح کی نشانی کا تقاضا یہ کر رہے ہیں، بالکل اُسی طرح کی نشانی اِن سے پہلی قوموں نے بھی اپنے رسولوں سے طلب کی تھی۔ وہ بھی حق واضح ہو جانے کے بعد محض ہٹ دھرمی کے باعث یہ مطالبہ کر رہے تھے اور یہ بھی حق کو پوری طرح سمجھ لینے کے بعدمحض ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ لہٰذا جس طرح کے قفل اُن کے دلوں پر تھے، اُسی طرح کے قفل اِن کے دلوں پر بھی ہیں۔ یہ اب عذاب دیکھ لینے کے بعد ہی مانیں گے۔
285 مطلب یہ ہے کہ جو یقین کرنا چاہیں، اُن کے لیے تو تمھاری رسالت کا اثبات اب کسی نشانی اور معجزے کا محتاج نہیں رہا، اِس لیے کہ انفس و آفاق اور تاریخ و آثار سے اِس کے دلائل ہم نے ہر پہلو سے کھول کھول کر قرآن میں بیان کر دیے ہیں۔
286 یعنی سرکشی اور ہٹ دھرمی کے باعث دوزخ جن کے لیے مقدر ہو چکی ہے۔