امام انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں:
أمَّا الكلامُ، في يَأْجُوجَ ومَأْجُوجَ، فاعلم أنهم، من ذُرِّيَّة يافث باتفاق المؤرِّخين … وللبرطانية إقرارٌ بأنهم من ذُرِّيَّة مَأْجُوجَ، وكذا ألمانيا أيضًا منهم، وأمَّا الروس فهم من ذُرِّيَّةِ يَأْجُوجَ.
ترجمہ: جہاں تک یاجوج ماجوج کے متعلق کلام ہے، تو وہ مؤرخین کے اتفاق سے یافث کی اولادوں میں سے ہے۔ اور اہلِ برطانیہ اپنے اقرار سے ماجوج کی اولادوں میں سے ہیں۔ اور جرمنی والے بھی اسی طرح ان میں سے ہیں۔ اور جہاں تک روس کی بات ہے، تو وہ یاجوج کی اولادوں میں سے ہیں۔
[فيض الباري على صحيح البخاري، جلد ۴، صفحہ نمبر ۳۵۴]
اسی طرح فرماتے ہیں:
فاعلم أنا لم نَجِدْ في القرآن، ولا في حديثٍ صحيحٍ أن السدَّ مانعٌ عن خروجهم، إلاَّ ما عند الترمذيِّ … وقد ذَكَرْنَا تمامه في «عقيدة الإِسلام»، مع أن ابن كثير علَّله، وقال: إن أبا هريرة قد يَرْفَعُهُ، وقد يُوقِفُهُ على كَعْبٍ … أنه ليس بمرفوعٍ، بل هو من كعب نفسه.
ترجمہ: اور جان لو کہ قرآن اور کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے کہ دیوار ان کو باہر نکلنے سے رُوکے ہوئے ہے، صرف ترمذی کی ایک حدیث میں ہے۔ ہم نے اس کو مکمل طور پر اپنی کتاب “عقیدۃ الاسلام” میں ذکر کیا اور ابنِ کثیرؒ سے اس کی تعلیل ذکر کی اور انہوں نے فرمایا: ابو ہریرہؓ نے اس کو مرفوع بیان کردیا جبکہ اس کا دار و مدار کعب الاحبار پر ہے۔ وہ مرفوع نہیں ہے، بلکہ کعب کی اپنی ذاتی روایت ہے۔
[فيض الباري على صحيح البخاري، جلد ۴، صفحہ نمبر ۳۵۴-۳۵۵]
یہ بات یاد رہے کہ ایک مشہور حدیث ہے مگر ضعیف ہے۔ حضرتِ ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ يَحْفِرُونَ كُلَّ يَوْمٍ حَتَّى إِذَا كَادُوا يَرَوْنَ شُعَاعَ الشَّمْسِ قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ ارْجِعُوا فَسَنَحْفِرُهُ غَدًا فَيُعِيدُهُ اللَّهُ أَشَدَّ مَا كَانَ حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ مُدَّتُهُمْ وَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَهُمْ عَلَى النَّاسِ حَفَرُوا حَتَّى إِذَا كَادُوا يَرَوْنَ شُعَاعَ الشَّمْسِ قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ ارْجِعُوا فَسَتَحْفِرُونَهُ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى وَاسْتَثْنَوْا فَيَعُودُونَ إِلَيْهِ وَهُوَ كَهَيْئَتِهِ حِينَ تَرَكُوهُ
ترجمہ: بیشک یاجوج ماجوج ہر روز اس (بڑی دیوار کو) کو کھودتے ہیں، جب وہ غروب کو پہنچتے ہیں تو ان کا سردار ان سے کہتا ہے:
“اب چلے جاؤ، کل کھودیں گے”
لیکن اللہ تعالیٰ اسے پہلے کی سخت حالت میں لوٹا دیتا ہے۔ حتیّ کہ ان کا وہاں ٹہرنا پورا ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ ارادہ کرلے گا کہ اب ان کو لوگوں پر بھیج دیا جائے، وہ کھودنا شروع کردیں گے، یہاں تک کہ ڈوبتے ہوئے سورج کی انہیں کرنیں نظر آئیں گی۔ پھر ان کا سردار کہے گا:
“تم سب چلے جاؤ، اب “ان شاء اللہ تعالیٰ” کل کھودیں گے”
جب صبح ہوگی تو وہ اس کو اسی حالت میں پائیں گے جس حالت میں چھوڑ کر گئے تھے۔
[سنن الترمذی، کتاب التفسیر، حدیث: ۳۱۵۳، سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، حدیث نمبر: ۴۰۸۰]
اس کی سند میں امام قتادہ رحمہ اللہ ابو رافع سے روایت کر رہے ہیں جبکہ ان کا ان سے سماع ثابت نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ اور امام شعبہ رحمہ اللہ کے حوالے سے مذکور ہے کہ ان حضرات نے فرمایا:
لم يسمع قتادة من أبي رافع شيئاً
ترجمہ: قتادہؒ نے ابو رافع سے کچھ بھی نہیں سُنا۔
[العلل ومعرفة الرجال لأحمد بن حنبل، جلد ۱، صفحہ نمبر ۵۲۸، رقم: ۱۲۴۱]
امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے ایک اور وجہ بیان فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
في رفعه نكارة
ترجمہ: اس کے مرفوع ہونے میں نکارت ہے۔
[تفسير القران العظيم، جلد ۵، صفحہ نمبر ۱۹۸]